728 x 90

آمدنی کے محدود ذرائع: چھوٹے شہروں کے نوجوانوں کی خاموش جدوجہد،ایک نوجوان لڑکی نظر میں

آمدنی کے محدود ذرائع: چھوٹے شہروں کے نوجوانوں کی خاموش جدوجہد،ایک نوجوان لڑکی نظر میں

پاکستان میں چھوٹے شہروں کی معیشت ایک ایسے بحران سے دوچار ہے، جو بظاہر خاموش ہے مگر اس کے اثرات نوجوانوں، خواتین اور متوسط طبقے کی زندگیوں میں گہرائی تک سرایت کر چکے ہیں۔ میں خود جھنگ شہر سے تعلق رکھتی ہوں، اور بطور ایک 20 سالہ نوجوان لڑکی، جو میں نے اپنے گرد دیکھا،

پاکستان میں چھوٹے شہروں کی معیشت ایک ایسے بحران سے دوچار ہے، جو بظاہر خاموش ہے مگر اس کے اثرات نوجوانوں، خواتین اور متوسط طبقے کی زندگیوں میں گہرائی تک سرایت کر چکے ہیں۔ میں خود جھنگ شہر سے تعلق رکھتی ہوں، اور بطور ایک 20 سالہ نوجوان لڑکی، جو میں نے اپنے گرد دیکھا، وہ صرف جھنگ کا نہیں بلکہ پاکستان کے درجنوں دیگر چھوٹے شہروں کا بھی آئینہ ہے۔

زوال پذیر معیشت: جھنگ کی ایک جھلک

جھنگ، جو کبھی تاریخی، ثقافتی اور زرعی اہمیت کا حامل شہر تھا، آج معاشی مواقع کے لحاظ سے ایک پسماندہ علاقہ بن چکا ہے۔ یہاں کے بیشتر افراد زراعت، یومیہ اجرت یا چھوٹے کاروبار پر انحصار کرتے ہیں۔ کوئی نیا کاروبار شروع ہو تو وہ ابتدائی دنوں میں عوام کی توجہ حاصل کر لیتا ہے، مگر چند ماہ بعد ہی گاہک آنا چھوڑ دیتے ہیں، جس کے بعد یا تو کاروبار بند ہو جاتا ہے یا شدید نقصان میں چلا جاتا ہے۔

کاروباری سوچ کا فقدان اور نقل کا رجحان

یہاں کے لوگ نئی سوچ اور جدت کو اپنانے سے کتراتے ہیں۔ اگر کوئی نیا کاروباری آئیڈیا آتا ہے تو بجائے اس کی حوصلہ افزائی کے، اس کی نقل شروع ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک نوجوان برگر شاپ کھولتا ہے تو فوراً اردگرد تین چار اور شاپس کھل جاتی ہیں، نتیجتاً سب کے کاروبار متاثر ہوتے ہیں۔

ناکامی سے خوف اور سماجی رویے

یہاں نیا کام شروع کرنے سے زیادہ لوگ اس کے ناکام ہونے سے ڈرتے ہیں، اور یہ خوف معاشرے کے سخت رویے سے جنم لیتا ہے۔ اگر کوئی نوجوان کاروباری ناکامی کا شکار ہو جائے تو سیکھنے کے بجائے اسے مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ رویہ نئی سوچ اور اختراع کے لیے خطرناک ہے۔

خواتین کے لیے محدود مواقع — اور اعدادوشمار

جھنگ جیسے شہروں میں خواتین کے لیے نہ روزگار کے مواقع موجود ہیں، نہ کوئی محفوظ اور باعزت سماجی جگہ۔

تعلیم: لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی (LCWU) کا جھنگ میں موجود ذیلی کیمپس 2020 میں یونیورسٹی آف جھنگ میں ضم کر دیا گیا، جس سے ایک آزاد خواتین یونیورسٹی کا تصور کمزور ہو گیا (ماخذ: Dawn, The News)۔

مہارت و ہنر: یونیورسٹی آف جھنگ کے اندر ایک Skill Development Center ہے، جو فی سیشن تقریباً 21 مختصر کورسز فراہم کرتا ہے، جن میں IT، فری لانسنگ، گرافک ڈیزائننگ، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے مضامین شامل ہیں۔

سرکاری ووکیشنل ادارے: TEVTA کے مطابق جھنگ میں 14 سرکاری ٹیکنیکل یا ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس موجود ہیں، جن میں 5 خواتین کے لیے مخصوص (GVTIs) بھی شامل ہیں

اس سب کے باوجود، یہ ادارے محدود تعداد میں طلبہ کو سہولت فراہم کرتے ہیں اور خواتین کے لیے سماجی دباؤ، سفر کی مشکلات اور کم عملی مواقع بڑی رکاوٹ ہیں۔

تعلیم اور عملی تربیت کی کمی

زیادہ تر لوگ کاروبار کو صرف “دکان کھولنے” تک محدود سمجھتے ہیں۔ برانڈنگ، صارفین کی نفسیات، سوشل میڈیا مارکیٹنگ، یا بزنس ماڈل جیسے تصورات سے لوگ نابلد ہیں۔ نہ کوئی راہنمائی ہے، نہ ہی کوئی ادارہ جو ان کی تربیت کرے۔

معاشی جمود کے اثرات

1. غربت میں اضافہ

2. نوجوانوں میں مایوسی اور ہنر کا ضیاع

3. بڑے شہروں کی طرف ہجرت

4. خاندانی دباؤ اور جھگڑوں میں اضافہ

کیا کیا جا سکتا ہے؟ (حل اور تجاویز)

1. تعلیمی اداروں میں کاروباری تربیت

کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بزنس آئیڈیاز پر مبنی ورکشاپس کا انعقاد ہو، جہاں نوجوانوں کو کاروبار شروع کرنے، ناکامی کا سامنا کرنے اور نئے آئیڈیاز کو آزمانے کی ترغیب دی جائے۔

2. چھوٹے کاروبار کی حمایت

مقامی برانڈز، دکانوں اور مصنوعات کو خرید کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ نقل کے بجائے اصل کو سراہا جائے۔

3. خواتین کو معاشی سرگرمیوں میں شامل کرنا

خواتین کو محفوظ، صاف ستھری اور سہولیات سے آراستہ ورک اسپیس دی جائے۔ گھریلو کاروبار کو قانونی، فنی اور معاشرتی تعاون فراہم کیا جائے۔

4. تربیتی مراکز کا قیام

حکومت یا NGOs کی مدد سے نوجوانوں کے لیے کاروباری تربیت، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، فری لانسنگ، اور سوشل میڈیا کے کورسز کرائے جائیں تاکہ وہ جدید دنیا سے ہم آہنگ ہو سکیں۔

5. حکومتی سرپرستی

نئے کاروباروں کے لیے آسان شرائط پر قرضے، سبسڈی، انکیوبیشن سینٹرز اور ٹیکنیکل سپورٹ مہیا کی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ چھوٹے شہروں کی معیشت پر خصوصی توجہ دے۔

نتیجہ

چھوٹے شہروں میں آمدنی کے محدود ذرائع صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی بحران ہیں، جو نوجوانوں کے خواب، خواتین کی خودمختاری اور پورے معاشرے کی ترقی پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ جھنگ کے اعدادوشمار اور موجودہ حالات واضح کرتے ہیں کہ مواقع موجود ہیں، مگر ان تک رسائی اور پائیداری کے لیے حکومتی سرپرستی، سماجی تبدیلی اور جدید مہارتوں کی تربیت ناگزیر ہے۔ اگر ہم نئے خیالات کو جگہ دیں، حوصلہ افزائی کو فروغ دیں اور ناکامی کو سیکھنے کا موقع سمجھیں، تو چھوٹے شہر بھی بڑے خواب دیکھ سکتے ہیں — اور انہیں پورا بھی کر سکتے

وردا یونیورسٹی آف جھنگ میں صحافت کی طالبہ ہیں اور مختلف سماجی اور معاشرتی مسائل کا لکھنے کا شوق رکھتیں ہیں

یہ تحری مصنف کی ذاتی آراء اور تحقیق پر مبنی ہے ادارہ دی جھنگ ٹائمز کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں

وردا
AUTHOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos