728 x 90

تو بڑا ڈی سی جھنگ لگا ہے

تو بڑا ڈی سی جھنگ لگا ہے

تو بڑا ڈی سی جھنگ لگا ہے . یہ فقرہ اپ نے بہت سارے لوگوں سے سنا ہوگا کبھی دوسرے شہر کے بارے میں ایسا فقرہ اپ کے کان میں نہیں پڑا ہوگا اس فقرے کا بیک گراؤنڈ جاننے کے لیے کافی محنت کرنی پڑی کافی پرانے افسران جو کسی زمانے میں جھنگ ڈی سی

تو بڑا ڈی سی جھنگ لگا ہے . یہ فقرہ اپ نے بہت سارے لوگوں سے سنا ہوگا کبھی دوسرے شہر کے بارے میں ایسا فقرہ اپ کے کان میں نہیں پڑا ہوگا اس فقرے کا بیک گراؤنڈ جاننے کے لیے کافی محنت کرنی پڑی کافی پرانے افسران جو کسی زمانے میں جھنگ ڈی سی اے سی یا اے ڈی سی ار ہے ان سے بات کرنی پڑی کئی شہروں کا سفر کرنا پڑا جو زندہ تھے ان سے ملاقات ہو گئی جھنگ کی تاریخ کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا گیا برٹشلائبریری لندن سے بھی کافی کچھ ملا سابق اسسٹنٹ کمشنر میاں کمال الدین 90 کی دہائی میں جھنگ اے سی رہے ہیں ان سے ایک بار فیصل اباد میں ملاقات کی اور ان سے اس بات کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوئی انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ فقرہ بہت بار سنا تھا جب وہ جھنگ میں پوسٹڈ ہوئے ہوئے تو ایک سینیئر ہیڈ کلرک سے اس بابت انہوں نے معلوم کیا تو ان کی زبانی معلوم ہوا کہ ضلع جھنگ اپنے وقت میں بہت بڑا ضلع تھا فیصل اباد ساہیوال ٹوبہ شاہ پور اور چنیوٹ بھی اس کا حصہ تھے اس کی سرحد شیخوپورہ تک پھیلی ہوئی تھی انگریزوں نے جو پہلے چھ ضلعے بنائے تھے بر صغیر میں ان میں جھنگ بھی شامل تھا سابق ڈپٹی کمشنر جھنگ اطہر طاہرایک بار دوبارہ جھنگ ائے تھے جناب کالج کے 25 سال مکمل ہونے پر ان سے بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی تو ان سے معلوم ہوا کہ جھنگ کی سرحدیں کئی ضلوں سے ملتی تھی شیخوپورہ سے محکمہ انہار کے لوگ سرکاری ملازمین ڈاک وغیرہ لینے کے لیے جھنگ اتے تھے کیونکہ انگریز دور میں محکمہ نہار کا بڑا افسر جھنگ میں بیٹھتا تھا دفاعی لحاظ سے بھی انگریزوں نے اس ضلع کو بڑی اہمیت دی تھی سابق ڈپٹی کمشنر قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامے میں ضلع جھنگ پر پورا ایک باپ تحریر کیا ہے جو کہ پڑھنے کے لائق ہے سابق اے ڈی سی جی جھنگ اور موجودہ چیئرمین نیپرا وسیم مختار ہمارے بڑے پیارے دوست ہیں ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ جھنگ زراعت کے حوالے سے پاکستان بھر میں بہترین مانا جاتا تھا یہاں کا صاف پانی میٹھا پانی زرخیز مٹی جناب اور جہلم کی مچھلی دور دور تک مشہور تھی یہاں کا کلچر رسومات گھوڑ سواری مال مویشی یہاں کے بڑے بڑے لینڈ لارڈ اپنی شان و شوکت کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مشہور تھے یہاں کے تانگے اور بگیاں دیکھنے کے قابل ہوتی تھی اس لیے ایک فلمی گانے میں تانگہ لاہور دا ہوے یا جھنگ تانگے والا خیر مانگدا کی بات مشہور ہوئی سابق ڈپٹی کمشنر جھنگ اور سابق سیکرٹری داخلہ شاہد خان کے مطابق سرکاری افسران جھنگ ڈی سی لگنا بڑا فخر سمجھتے تھے جھنگ کے بارے میں یہ بات درست ہے جو افسر یہاں ایک بار تعینات ہو جاتا تھا پھر اس کا دل یہاں سے جانے کو نہیں کرتا تھا محبت اور پیار کرنے والے لوگ جناب اور جیلم کی رو مچھلی دو دریاؤں کا سنگم عشق محبت کی داستانیں یہاں کے بڑے بڑے سرکاری رہائش گاہیں ڈاک بنگلے ریسٹ ہاؤس تازہ اور فریش سبزیاں افسر کا دل جیت لیتے تھےسابق صدر جھنگ بار مرحوم سید اخلاق الحسن ایڈوکیٹ جو کہ میرے پڑوسی تھے ایک دفعہ بڑی تفصیلی بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی تقسیم کے وقت جب انہوں نے بھارت سے ہجرت کر کے اپنی زمینوں کی لاٹمنٹ کے لیے اپنے عزیز و اقارب سید مسلم حسین ترمذی سید ظفر حسین ترمذی اور دیگر بزرگوں سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جھنگ دو دریاؤں کا شہر ہے ہمیں وہاں ہی جا کر بسنا چاہیے اس لیے ہم نے اپنی زمینیں اور گھر جھنگ میں ہی الاٹ کروائے اس شہر نے ہمیں بہت زیادہ عزت دی میں نے دوران تعلیم جھنگ کا کافی ذکر پڑھا تھا اس لیے ہم نے جھنگ کو ترجیح دی جھنگ کے مقامی تاجر شیخ نسیم جو کہ ہمارے دوست میاں عامر مجید کے والد ہیں سے بھی کئی بار اس سلسلے میں گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا ہمارے اباؤ اجداد کافی عرصے سے پاکستان بننے سے پہلے بھی چنیوٹ اور جھنگ میں اباد تھے ہمارے والد صاحب شیخ عبدالمجید ایڈوکیٹ مرحوم جو تقسیم پاکستان کے وقت کسٹوڈین مقرر ہوئے تھے ہمارے خاندان کے اور بھی بہت سارے لوگ چنیوٹ سے جھنگ شفٹ ہو گئے تھے اور بعد ازاں ملک کے دیگر علاقوں لاہور کراچی میں چلے گئے ان کا پاکستان کے کاروبار میں نمایاں حصہ ہے جھنگ نے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے نمایاں شخصیات کو جنم دیا جن میں ڈاکٹر عبدالسلام ڈاکٹر نوبل پرائز انعام یافتہ ہمارا ایک دوست جو انڈیا ہجرت کر گئے ہیں اور روٹری کلب انٹرنیشنل کے ممبر ہیں اجیت تلواڑ ان سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے انہوں نے کہا ہے کہ وہ جھنگ سیٹی کے پاس باب علی کے پاس کےتلواڑوں والے کھوں کے رہائشی ہیں اور یہاں سے ہجرت کر کے انڈیا چلے گئے تھے لیکن ان کا دل اج بھی جھنگ کے لیے دھڑکتا ہے ان کے بزرگ جھنگ کے پیارے لوگوں کو اور اس سرزمین کو اج بھی یاد کرتے ہیں میری انڈیا میں جھنگ ایسوسییشن کے مختلف عہدے داروں سے ملاقات ہوئی وہ جھنگ سے ہجرت کر کے گئے انہوں نے وہاں دلی میں اور بمبے میں جھنگ ایسوسییشن بنائی ہوئی ہےان میں سے ایک بزرگ سے 1992 میں پرانی دلی میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے اتنی محبت سے ملاقات کی کہ وہ مجھے اج بھی یاد ہے ان کی عمر اس وقت 103 سال تھی اور ان کی یادداشت اتنی اچھی تھی کہ انہوں نے مجھے محلہ چنبیلی مارکیٹ سلطان والا محلہ کہ رہائشی پرانے لوگوں کے بارے میں پوچھا جو جو لوگ مجھے یاد تھے میں نے ان کو بتایا تو وہ بہت خوش ہوئے جھنگ میں ریونیو محکمہ انہار محکمہ زراعت محکمہ جنگلات وغیرہ کے مرکزی دفاتر موجود تھے انتظامی لحاظ سے بہت بڑا ضلع تھا سابق ڈپٹی کمشنر بہاولپور جھنگ کے رہائشی ملک فروز جو کہ ملاد چوک بازار کھیتیاں والے میں رہتے ہیں اس وقت زندہ تھے اب فوت ہو چکے ہیں ان کے گھر میری ملاقات ہوئی تو اس فقرے کے بارے میں انہوں نے بڑی دلچسپ بات کی انہوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ جب وہ ساتویں کلاس میں پڑھتے تھے تو اپنے بہن بھائیوں سے زیادہ لائق تھے اور گھر میں ہر چیز پر اپنا حق زیادہ سمجھتے تھے ایک دن انہوں نے اپنی والدہ سے صبح ناشتے کے وقت دوسرے بہن بھائیوں سے ایک پراٹھا زیادہ مانگ لیا تو میری مرحوم ماں نے کہا کیوں تو ڈی سی جھنگ لگائیں میں سوچنے لگ گیا ہے کہ ڈی سی جھنگ لگن نال دو پروٹے ملن گے اسے دن میں نے عہد کر لیا کہ میں ہر حال میں ڈی سی بنوں گا جب میں تعلیم مکمل کر کے ڈی سی لگ گیا اس وقت میری والدہ زندہ نہیں تھی میں ان کی قبر پر فاتحہ دینے کے لیے گیا اور وہاں کھڑے ہو کر میں نے ماں کومخاطب کرتے ہوئے کہا ماں تیرا بیٹا ڈی سی بن گیا ہے لیکن بدقسمتی سے تیرا بیٹا ہوم ٹاؤن کی وجہ سے ڈی سی جھنگ نہیں لگ سکتا ملک فروز صاحب نے بتایا تھا کہ اس دن مجھے پتہ لگا اس فقرے کا مطلب قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامے میں شہید روڈ ریل بازار چوک کے ایک موچی کا ذکر کیا ہے جو کہ اپنے وقت کا ولی تھا لیکن اس کے بارے میں جھنگ کے لوگوں کو کچھ علم نہ تھا قدرت اللہ شہاب نے ان سے کئی بار ملاقات کی قرت اللہ شہاب نے جھنگ کے سیاست دانوں لینڈ لارڈ ان کی شان و شوکت ان کا میل جول مہمان نوازی کا بھی بہت ذکر کیا ہے برٹش لائبریری میں بھی جھنگ گزٹ میں اپنے وقت کے ڈپٹی کمشنر انہوں نے جھنگ کے کلچر اس کی زرخیز زمین خوبصورت لوگ یہاں کے لوگ داستانوں ہیر رانجھا مرزا صاحبہ یہاں کے درباروں شاہ جیونہ باہو سلطان سمیت اس میں واقعہ دیگر درباروں کا بھی بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے انگریز ڈپٹی کمشنراور دیگر افسران نے بھی نے اپنی تحریروں میں ضلع جھنگ کا وسیع اور عریض رقبے اور اس کے شہروں کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے پنجاب میں سب سے زیادہ سرکاری رقبہ جھنگ میں ہی موجود تھا جو کہ لاکھوں ایکڑ پر مشتمل تھا اور پاکستان کی بڑی بڑی سکیموں کے لیے لوگوں کو اباد کرنے کے لیے یہاں سے ہی رقبہ الاٹ کیا گیا سکندر اعظم بھی اپنی تاریخ میں اس جھنگ کا ذکر کر چکا ہے اب اتے ہیں اصل فقرے کی طرف کہ جھنگ کا ڈی سی لگنا بڑے اعزاز کی بات تھی یہ بات کسی اور ضلع کے بارے میں مشہور نہیں ہے کئی سابق افسران نے اپنی بات چیت میں بتایا کہ ہمیں سول سروس اکیڈمی میں جھنگ کے بارے میں بہت کچھ بتایا جاتا تھا اور یہ فقرہ وہاں بھی ہمیں سننے کو ملا کہ تو ڈی سی جھنگ لگائیں اس کا مطلب ہے جھنگ کا ڈی سی لگنا بڑے اعزاز کی بات ہے لیکن اب جھنگ پہلے والا جھنگ نہیں رہا اس کے ٹکڑے کر کر کے اس کو بہت چھوٹا کر دیا گیا ہےاور اب اس کے بارے میں کچھ اور ہی باتیں مشہور ہیں جن پر پھر کسی وقت بات کریں گے بہرحال جھنگ کو قیامت تک فخر رہے گا کہ اس کا ڈی سی لگنا کتنے بڑے اعزاز کی بات تھی

محمد وحید اختر چوہدری پی پی ائی نیوز ایجنسی کے لیے کام کرتے ہیں مختلف میگزین اخبارات رسالہ جات اور سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں

یہ تحریر مصنف کی ذاتی آراء اور تحقیق پر مبنی ہے جس سے دی جھنگ ٹائمز کا متفق ہونا ضروری نہیں

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos