728 x 90

جھنگ میں پینے کے صاف پانی کا بحران

جھنگ میں پینے کے صاف پانی کا بحران

جھنگ دو دریاؤں کا شہر ہے۔ دریا کے نزدیک ہونے کی وجہ سے اس شہر کا پانی کسی زمانے میں بہت اچھا ہوتا تھا لیکن اب سیوریج کی پانی کی وجہ سے اس کا زیر زمین پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔ اس وجہ سے جگہ جگہ فلٹریشن واٹر کے پلانٹ لگ گئے ہیں۔ کئی

جھنگ دو دریاؤں کا شہر ہے۔ دریا کے نزدیک ہونے کی وجہ سے اس شہر کا پانی کسی زمانے میں بہت اچھا ہوتا تھا لیکن اب سیوریج کی پانی کی وجہ سے اس کا زیر زمین پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔ اس وجہ سے جگہ جگہ فلٹریشن واٹر کے پلانٹ لگ گئے ہیں۔ کئی این جی او کی طرف سے فلٹریشن پلانٹ بھی لگائے گئے ہیں، حکومت کی طرف سے بھی فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے ہیں لیکن چیک کرنے پر معلوم ہوا ان میں سے بہت کم فلٹریشن پلانٹ معیار پر پورے اترتے ہیں۔

کئی سرکاری فلٹریشن پلانٹ کا ٹی ڈی ایس 300 سے زیادہ اور 600 سے کم تھا۔ پرائیویٹ فلٹریشن پلانٹ کا بھی چیکنگ کی گئی، وہاں کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں تھی۔ اگر پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ میں سٹینڈر مرلے سے گزرا ہے تو صاف پانی ہے۔ ہمارے ملک میں پانی کی جو صورتحال ہے اس بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ایک سروے کروایا تھا۔ ضروری نہیں کہ جو پانی بوتل میں بند فروخت ہو رہا ہے وہ صاف اور پینے کے قابل ہو۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ صاف اور اچھا پانی ہو تو اپنے گھر میں پانی ابال کر پییں۔

صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے جھنگ میں ہیپاٹائٹس، ڈینگی، ملیریا اور جگر کی بیماریاں سب سے زیادہ پھیل رہی ہیں۔ نام نہاد بند بوتل کے پانی پر جو کروڑوں روپے ہم خرچ کر رہے ہیں اگر وہ ہم اپنے پانی کو صاف کرنے پر لگا دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ عام آدمی بھی اب فلٹریشن پلانٹ کا بنا ہوا پانی اور بند بوتلوں میں پانی خریدنے پر مجبور ہے۔ عام سافٹ ڈرنک بنانے والی کمپنیوں نے بھی اربوں روپے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے، ہر کمپنی اپنا اپنا پانی بنا رہی ہے۔

ضلع جھنگ میں حکومتی نااہلی کی وجہ سے زیر زمین پانی اتنا خراب ہو چکا ہے۔ شہر کے ساتھ ساتھ چلنے والا خیرآباد ڈرینج نالہ جھنگ کے زیر زمین پانی کو انتہائی خراب کر چکا ہے۔ بہت ساری این جی اوز نے صاف پانی فراہم کرنے کے لیے فلٹریشن پلانٹ ضلع جھنگ میں لگائے ہیں جن میں روٹری کلب، ہیومن ویلفیئر سوسائٹی وغیرہ شامل ہیں۔ بہت سارے مخیر حضرات جگہ جگہ کھانے کے دسترخوان لگاتے ہیں اگر وہ ان کے ساتھ صاف پانی کے پلانٹ بھی لگا دیں تو جھنگ کی عوام ہیپاٹائٹس بی، سی اور دیگر بیماریوں سے بچ سکتی ہے۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر عارف محمود اور ماحولیات پر لکھنے والے صحافی اکمل ملک کا کہنا ہے کہ صاف پانی ہماری زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ لوگ آئے روز جو نئی نئی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اس میں 80 فیصد سے زیادہ کردار صاف پانی نہ ہونا ہے۔ پہلے لوگ گھروں میں نلکے لگاتے تھے لیکن اب ہر گھر میں لال پمپ لگ گیا ہے جو بہت تیزی سے زیر زمین پانی کھینچ کر اوپر لاتا ہے۔ اس میں سیوریج اور دیگر چیزیں بھی شامل ہو جاتی ہیں جو ہم پیتے ہیں، جس سے جگر، ہیپاٹائٹس بی، سی اور دیگر خطرناک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔

ذمہ دار محکمے جن میں فوڈ اتھارٹی، محکمہ صحت وغیرہ شامل ہیں، ان فلٹریشن پلانٹس کو باقاعدگی سے چیک نہیں کرتے۔ یہ پلانٹ زیادہ تر بااثر لوگوں کے ہیں۔ بہت سارے فلٹریشن پلانٹ کے پاس اجازت نامہ ہی نہیں ہے۔ جو ایس او پیز حکومت نے ان فلٹریشن پلانٹ کے لیے بنائے ہیں اس پر کوئی عمل نہیں کرتا۔ یہ گلی محلوں میں لگے ہوئے ہیں اور زیادہ تر نالیوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں جن میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہو جاتا ہے۔ ان کو چند کیمیکل ڈال کر صاف کیا جاتا ہے اور بوتلوں میں بھر کر فروخت کیا جاتا ہے۔

جھنگ کے کئی علاقے جن میں محلہ ببرانہ، مگیانہ کالونی، قاسمی کالونی، چمیلی مارکیٹ، سلطان والا، حسن آباد، مرضی پورہ وغیرہ شامل ہیں، کا پانی بالکل خراب ہو چکا ہے۔ یہاں کے مکین باہر سے فلٹریشن پلانٹ کا پانی منگوا کر پینے پر مجبور ہیں جن پر ان کا ماہانہ ہزاروں روپے خرچ ہو جاتا ہے۔

میڈیسن کے سپیشلسٹ ڈاکٹر شہزاد ظفر اقبال نے بتایا کہ ان کے پاس گزشتہ دو ماہ میں صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے 80 فیصد مریض ملیریا، ہیپاٹائٹس، جگر اور پیٹ کی دیگر خطرناک بیماریوں میں مبتلا نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ خود احتیاط نہیں کرتے۔ اگر لوگ پانی ابال کر پییں تو بہتری آ سکتی ہے لیکن اکثر لوگ کہتے ہیں کبھی گیس نہیں ہوتی، کبھی ٹائم نہیں ہوتا کہ پانی ابال کر پییں۔ پرانے زمانے میں لوگ گھڑوں میں پانی ڈال کر رکھتے تھے جو کہ بالکل صاف اور فلٹر شدہ ہوتا تھا۔ اس وقت لوگوں میں بیماری نہ ہونے کے برابر تھی۔

حکیم سردار کلجیت سنگھ نے بتایا کہ آج کل اپنی ٹینکی میں اگر جامن کی لکڑی ڈال دی جائے تو پانی قدرتی طور پر صاف اور فلٹر شدہ بن جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں کنوں کے نزدیک جامن کے درخت لگائے جاتے تھے تاکہ ان کی لکڑی پانی میں گرتی رہے اور پانی صاف و شفاف ہو جائے۔ قدرت نے جامن کے درخت میں بہت فائدے رکھے ہیں۔

روٹری کلب کے خصوصی نمائندے عمر خان نے کہا کہ ہم نے پورے ضلعے میں 40 کے قریب فلٹریشن پلانٹ لگائے ہیں۔ ان کی وجہ سے لوگوں کو صاف اور شفاف پانی پینے کے لیے ملتا ہے لیکن بدقسمتی سے لوگ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ لوگ فلٹریشن پلانٹ کی ٹوٹیاں اتار کر لے جاتے ہیں اور وہاں گند بھی پھیلا دیتے ہیں، صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔

فلٹریشن پلانٹ سپلائی کرنے والے معروف بزنس مین اور بی ایچ انڈسٹری کے مالک عتیق ہرل نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم جس جگہ پلانٹ لگاتے ہیں لوگ اس کی کیئر نہیں کرتے۔ پراپر صفائی نہیں کرتے، جو فلٹر بدلنا ہوتا ہے ٹائم پر وہ نہیں بدلتے اس لیے زیادہ تر فلٹریشن پلانٹ خراب ہو جاتے ہیں۔ اگر فلٹریشن پلانٹ کی صفائی بروقت کی جائے اور فلٹر ہر تین مہینے بعد بدل دیا جائے تو بہتر پانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں بھی وہ پلانٹ لگاتے ہیں وہاں ٹریننگ بھی دی جاتی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ سیکھنا نہیں چاہتے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگر حکومت وسائل فراہم کرے تو ہم پورے پاکستان کو صاف اور صحت مند پانی فراہم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلع جھنگ میں صاف پانی کیوں دستیاب نہیں ہے، اس میں حکومتی ناہلی ہے یا ضلع انتظامیہ کی کمزوریاں؟

ایم ڈی واسا سید سہولت رضا نے بتایا کہ چونکہ میں ضلع کا رہائشی ہوں اور مجھے ٹاسک دیا گیا ہے کہ جھنگ میں واسا کا سیٹ اپ بناؤں اور سیوریج و صاف پانی کے مسائل کو بہتر کروں، تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہے لیکن اس پر وقت لگے گا اور بہت سارا پیسہ بھی۔ فی الحال 40 سال پرانی سیوریج اور پانی کی لائنیں بوسیدہ ہو چکی ہیں جن کو دوبارہ چالو کرنا اور صاف پانی کے لیے جگہ جگہ ٹینکیاں بنانا ضروری ہے۔

ہمارا دو دریاؤں کا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے جو پانی کبھی 40 فٹ نیچے تھا اب 190 فٹ نیچے چلا گیا ہے اور وہ بھی صاف نہیں ہے۔ کچھ علاقے ابھی بچے ہوئے ہیں جن کا پانی صاف ہے کیونکہ وہاں سیوریج دور ہے۔ نااہل ٹھیکے داران نے 40 سال پہلے جو سیوریج بچھائی تھی وہ غلط پلاننگ کے تحت مختلف سائز کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیر زمین پانی خراب ہوتا گیا۔

انہوں نے کہا کہ انشاءاللہ اگر حکومت کا تعاون رہا تو میں بطور ایم ڈی واسا اس کو تین سال کے اندر بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق پنجاب بھر میں ڈینگی اور ہیپاٹائٹس کے سب سے زیادہ کیس جھنگ میں پائے گئے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ جھنگ کا پینے کا پانی کتنا خراب ہو چکا ہے۔

اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حکومت، ادارے اور عوام سب مل کر اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کریں تاکہ آنے والی نسلوں کو پینے کا صاف پانی مل سکے

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos