( نامور صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کے یومِ وفات کی مناسبت سے ریڈیو پاکستان کی طرف سے آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ضمن میں ادارے کے ڈائریکٹر جنرل سعید احمد شیخ کی خصوصی تحریر ) مولوی رکن الدین نے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کی زندگی کے آخری لمحات کو
( نامور صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کے یومِ وفات کی مناسبت سے ریڈیو پاکستان کی طرف سے آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ضمن میں ادارے کے ڈائریکٹر جنرل سعید احمد شیخ کی خصوصی تحریر )
مولوی رکن الدین نے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کی زندگی کے آخری لمحات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ اُن کی فارسی کتاب “اشاراتِ فریدی” کے اِس اقتباس کو کپتان واحد بخش سیال نے “مقابیس المجالس” میں اُردو ترجمہ کی شکل میں کچھ اِن الفاظ کے ساتھ پیش کیا ہے : ” دوپہر کے وقت سب لوگ حضرت کی زندگی سے مایوس ہو گئے آخر بوقتِ مغرب شبِ پنجشبہ ہفتم ماہِ ربیع الثانی سالِ ۱۳۱۹ ہجری مطابق دس ماہِ سانون سال ہندی ، ۲۴ ماہِ جولائی ۱۹۰۱ء طائرِ روحِ مقدس قفسِ عنصری سے پرواز کرگیا ۔“
ہمارے ہاں صوفیوں اور رُوحانی شخصیات کا یومِ وفات بالعموم ہجری کیلنڈر کے مطابق منایا جاتا ہے اور اِسے “عُرس” کا نام دیا جاتا ہے۔ “عُرس” عربی زبان کا کثیر المعانی لفظ ہے جس کے دیگر کئی معانی کے علاوہ ایک معنی اُس مجلس (یعنی لوگوں کے اجتماع ) کے بھی ہیں جس میں فاتحہ خوانی کے بعد طعام تیار کر کےکسی بزرگ کی وفات کے ٹھیک ایک سال کے بعد لوگوں کو کھلایا جاتا ہے (مجلس طعام فاتحه ٔ بزرگان است ، که به روز وفات بعد ازسالی کنند : بحوالہ “لغت نامہ دھخدا”)
تاہم حضرت خواجہ غلام فرید سے محبت کرنے والے کئی افراد اور اداروں نے گزشتہ چند سالوں سے آپ کا یومِ وفات عیسوی کیلنڈر کے مطابق منانا بھی شروع کیا ہے ۔ اِسے یاد آوری کی ایک منفرد سبیل کہا جاسکتا ہے۔ آپ کی شخصیت اور شاعری کے سحر نے ایک جہان کو آپ کا عقیدت مند اور چاہنے والا بنا رکھا ہے ۔
ریڈیو پاکستان اور صوفیانہ کلام کا تعلق بہت پُرانا ہے۔ اِس قومی نشریاتی ادارے کے تمام اسٹیشنز کے آڈیو آرکائیو میں گائے جانے کے بعد محفوظ کیا گیا صوفیانہ کلام موجود ہے ۔ ملتان اور بہاولپور کے ریڈیو پاکستان اسٹیشنز نے گزشتہ چند دہائیوں میں خواجہ غلام فرید کی مختلف کافیوں کو نامور گویوں کی آواز میں ریکارڈ کیا اور انہیں اپنے پاس محفوظ کر رکھا ہے ۔ کئی دہائیوں سے تواتر کے ساتھ آپ کے سالانہ عرس پر ان دونوں اسٹیشنز سے خصوصی پروگرامز بھی نشر ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ تاہم ۲۴ جولائی کی شام ، آپ کو آپ کے یومِ وفات کی مناسبت سے یاد کرنا اور آپ کو خراجِ عقیدت پیش کرنا، آپ کی شاعری اور شخصیت کے اُن مداحوں کا تقاضا تھا جو ریڈیو پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں اور جو اِس عظیم قومی ادارے سے ۲۴ جولائی کے دن بھی خواجہ غلام فرید کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی توقع رکھتے ہیں ۔
خواجہ غلام فرید نے صرف چھپن (۵۶) سال کی زندگی پائی ۔ آپ ۱۸۴۵ ء میں اُس وقت کی ریاست بہاولپور کے ایک چھوٹے سے قصبے “چاچڑاں” میں پیدا ہوئے اور ۱۹۰۱ء میں اِسی قصبے میں ہی وفات پاگئے ۔ تاہم کمالِ قدرت دیکھیں کہ آپ کا شمار اُس عہد کی اُن معدودے چند خوش قسمت ہستیوں میں سے ہوتا ہے جنہیں اپنی زندگی میں ہی بھرپور شہرت اور نیک نامی نصیب ہوئی ۔ آپ سب سے پہلے ایک بڑی خانقاہ ، خانقاہ ء قاضی محمد عاقل کوریجہ، کے سجادہ نشین کے طور پر معروف ہوئے اور پھر آپ کا شُہرہ ایک بڑے عالم کی حیثیت سے چہار سُو پھیلا ۔ اور جب آپ کی کافیاں ، قوال اور گویے پکے راگوں میں گانے لگے اور سُننے والے ان کافیوں کے عرفانی مضامین کے سبب ان پر وجد و سرور میں بھی آنے لگے ، تو آپ آناً فاناً ایک صوفی شاعر کے طور پر بھی معروف ہوگئے ۔ آپ کا شعری دیوان ۲۷۱ کافیوں پر مشتمل ہے ۔ کافی ایسی صنفِ ادب کو کہا جاتا ہے جس میں صوفیانہ مضامین نظم کیے گئے ہوں ۔
خواجہ غلام فرید کی شاعری کے موضوعات اور زبان ، دونوں ہی بڑی سادہ ہیں ۔ آپ عشقِ الٰہی پر زور دیتے ہیں ، نبیِ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور سنتِ نبوی پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتے ہیں ، انسان دوستی کی بات کرتے ہیں ، دھرتی سے جڑے رہنے کی اپنی بات کو منوانے کیلئے اپنے دائیں بائیں کے مظاہر فطرت (روہی چولستان اور اس کے فلورا اور فانا ) کا تذکرہ کرتے ہیں ، چوری جٙاری ( یعنی معاشرے کو زنگ آلود کرنے والے بُرے کاموں) سے دُوری کا سبق پڑھاتے ہیں، اسلاف کے اوصاف حمیدہ کو اپنانے کی دوسروں کو ترغیب دلانے کیلئے اُن کے چیدہ اقوال کو پیش کرتے ہیں ، عاشقانِ باصفا کے ہم راز بننے کی غرض سے اُن کی مزاج کے مطابق (عشق حقیقی سے لبریز) عشقیہ باتیں چھیڑتے ہیں ، علی ہذا القیاس!
خواجہ غلام فرید کی پچاس کافیوں کا پروفیسر کرسٹوفر شیکل نے انگریزی میں منظوم ترجمہ کیا ۔ تاہم آپ کے دیوان کے اُردو تراجم میں سب سے زیادہ مشہور نوراحمد خان فریدی ، مولوی عزیز الرحمٰن بہاولپوری ، خواجہ طاہر محمود کوریجہ اور مجاہد جتوئی کے گئے ترجمے ہیں ۔
البتہ خواجہ غلام فرید کی کافیوں میں موجود الفاظ کا تنوع ، آپ کی شاعری کے ترجمے کی کسی بھی کوشش کو مکمل طور پر کامیاب نہیں ہونے دیتا ۔ اِسی وصف کے سبب آپ کی شاعری ایک ایسا ہمالیہ نظر آتی ہے جسے آج تک کوئی سر نہیں کرسکا ، وہ ایسے کہ آپ (حسبِ ضرورت ) عربی اور فارسی الفاظ و تراکیب کو مقامی زبان ( جسے پہلے ‘بہاولپوری’ یا ‘ریاستی’ یا ‘ملتانی’ اور آجکل ‘سرائیکی’ زبان کہا جاتا ہے) میں منظوم ہونے والے اپنے رواں اشعار کے درمیان کچھ اِس طور سے استعمال کرتے ہیں کہ عربی اور فارسی سے سُدھ بُدھ نہ رکھنے والا اِن الفاظ کو مقامی سمجھ کر ان کی درست املاء اور ٹھیک معانی تک رسائی سے محروم ہی رہ جاتا ہے ۔ مولانا روم نے ٹھیک ہی کہا کہ ہر پرندے کی غذاانجیر نہیں ہوتی۔
خواجہ غلام فرید کے عارفانہ کلام میں، عالموں کیلئے عالمانہ مباحث موجود ہیں اور سادوں کیلئے سادہ باتیں ۔ آپ “ہر کسے از ظنِ خود ، شد یارِ من” کی علمی تصویر بھی ہیں اور “وز درونِ من نہ جُست اسرارِ من” کا نمونہ بھی ۔ آپ کی شاعری کے مضامین کی تفہیم کیلئے اسلامیہ یونیوسٹی بہاولپور نے “خواجہ فرید چئیر” بھی قائم کی ہے ۔ اِسی جامعہ اور بہاؤالدین یونیورسٹی ملتان، دونوں کے سیکڑوں طالب علموں کے ایم ۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی مقالہ جات کا موضوع آپ کی شاعری کے مختلف پہلو ہیں ۔
صوفیاء کے افکار کو معاشرے سے عدم برداشت کے خاتمے کے ضمن میں بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ خواجہ غلام فرید کا کلام اُسی عظیم صوفیانہ روایت کا حصہ ہے ، جسے معارفِ اسلامیہ اُس کی افادیت ، خاص طور پر معاشرتی اصلاح کے ضمن میں، انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتی چلی آرہی ہے۔ ریڈیو پاکستان نے مختلف صوفیاء کے کلام کو اس خاص حوالے سے بھی اپنے آرکائیو میں محفوظ کر رکھا ہے ۔
اگر آپ خواجہ غلام فرید کا عارفانہ کلام سُننا چاہتے ہیں تو ریڈیو پاکستان کے یو ٹیوب چینل “آواز خزانہ” سے ضرور استفادہ کریں ۔ ویسے تو سبھی نامور گوّیوں نے آپ کا کلام بہت محنت سے گایا ہے ، تاہم زاہدہ پروین کی خوبصورت آواز میں گائی گئی آپ کی کافیاں ضرور آپ کو ایک نئی چاشنی سے متعارف کروائیں گیں۔


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *