دنیا بھر میں نو میں سے ایک شخص ہر رات بھوکا سوتا ہے اور دنیا کے 23% ممالک کو غذائی تحفظ کے بحران کا سامنا ہے۔ورلڈ فوڈ ارگنائزیشن کی جانب سے جاری کئے جانے والے تازہ اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں 2.8 بلین سے زیادہ لوگوں کو صحت مند خوراک نہیں مل پاتی جبکہ
دنیا بھر میں نو میں سے ایک شخص ہر رات بھوکا سوتا ہے اور دنیا کے 23% ممالک کو غذائی تحفظ کے بحران کا سامنا ہے۔ورلڈ فوڈ ارگنائزیشن کی جانب سے جاری کئے جانے والے تازہ اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں 2.8 بلین سے زیادہ لوگوں کو صحت مند خوراک نہیں مل پاتی جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کی جون 2024 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ضائع ہونے والے کھانے کی کل لاگت 1 ٹریلین امریکی ڈالرز کے قریب بنتی ہے۔
دنیا بھرمیں جہاں پر بہت بڑی تعداد میں لوگ خوراک کی کمی شکار ہیں وہیں دنیا میں خوراک کا ضیاع بھی کسی بڑے المیے سے کم نہیں ہے خوراک کی کمی اور خوراک کا ضیاع دونوں ہی بہت اہم موضوعات ہیں اوردونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ بہت گہرا تعلق بھی ہے،اعداد شمار بتاتے ہیں کہ اگر خوراک کے ضیاع کو کم کیا جائے تو یہ خوراک کی کمی میں بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں پر اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے ۔
خوراک کی کمی اعداد وشمار کیا کہتے ہیں
ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کی جولائی 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی بھوک کی سطح مسلسل تین سالوں سے جمود کا شکار ہے 2023 میں تقریباً 713 سے 757 ملین افراد غذائیت کی کمی کا شکار تھے جو کہ 2019 کے مقابلے میں تقریباً 152 ملین زیادہ ہیں۔علاقائی رجحانات میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے جیسا کہ افریقہ میں بھوک کا شکار آبادی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے یہ 20 اعشاریہ 4 فیصد تک ہے جبکہ ایشیا میں یہ 8 اعشاریہ ایک فیصد کی سطح پر برقرار ہے حالانکہ یہ اب بھی ایک اہم چیلنج ہے کیونکہ یہ خطہ دنیا میں بھوک کا شکار نصف سے زیادہ آبادی کا گھر ہے البتہ لاطینی امریکہ میں کچھ پیشرفت نظر آتی ہے جہاں پر یہ شرح 6 اعشاریہ 2 فیصد تک آچکی ہے جبکہ 2022 سے 2023 تک، مغربی ایشیا، کیریبین اور بیشتر افریقہ کے ذیلی خطوں میں بھوک میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو 2030 تک تقریباً 582 ملین افراد دائمی غذائیت کی کمی کا شکار ہوں گے، جن میں سے نصف افریقہ میں ہوں گے، اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم( ایف اے او) بین الاقوامی زرعی ترقیاتی فنڈ (آئی ایف اے ڈی)، اقوام متحدہ کا بچوں کا فنڈ(یونیسیف)، عالمی خوراک پروگرام(ڈبیلوایف پی) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبیلو ایچ او) نے خبردار کیا ہے یہ پیش گوئی 2015 کی سطحوں سے بہت ملتی جلتی ہے، جب پائیدار ترقی کے اہداف اپنائے گئے تھے اور یہ ایک پریشان کن جمود کی نشاندہی کرتی ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اربوں لوگوں کے لیے مناسب خوراک تک رسائی اب بھی مشکل ہے۔ 2023 میں دنیا بھر میں تقریباً 2.33 بلین افراد نے درمیانے یا شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کیا، اور یہ تعداد 2020 میں کورنا وائرس وبا کے دوران ہونے والے اچانک اضافے کے بعد سے بھی نمایاں طور پر تبدیل نہیں ہوئی۔ ان میں سے، 864 ملین سے زیادہ افراد نے شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کیا، جنہیں کبھی کبھار ایک پورا دن یا اس سے زیادہ وقت بغیر کھانے کے گزارنا پڑا۔ یہ تعداد 2020 سے مسلسل زیادہ ہورہی ہے، اور لاطینی امریکہ میں بہتری کے باوجود، افریقہ میں خاص طور پر 58 فیصد آبادی کے معتدل یا شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہونے کی وجہ سے بڑے چیلنجز برقرار ہیں۔
صحت بخش غذا تک معاشی رسائی کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے جو دنیا کی ایک تہائی آبادی کو متاثر کر رہی ہے۔ نئے غذائی قیمتوں کے ڈیٹا اور طریقہ کار میں کچھ بہتری کے باوجود 2022 میں 2.8 بلین سے زیادہ افراد صحت بخش غذا کے حصول کے قابل نہیں تھے۔ یہ عدم مساوات کم آمدنی والے ممالک میں سب سے زیادہ ہے، جہاں 71.5 فیصد آبادی صحت بخش غذا حاصل نہیں کر سکتی، جبکہ زیادہ آمدنی والے ممالک میں یہ شرح 6.3 فیصد ہے۔ خاص طور پر، ایشیا، شمالی امریکہ، اور یورپ میں یہ تعداد کورونا وائرس کی وبا سے پہلے کی سطح سے نیچے آ گئی ہے، جبکہ افریقہ میں یہ نمایاں طور پر بڑھ گئی ہے۔
اگرچہ نوزائیدہ بچوں میں دودھ پلانے کی شرح 48 فیصد تک ہوئی ہے جو ایک اہم پیشرفت ہے، لیکن عالمی تغذیہاتی اہداف کو حاصل کرنا ایک چیلنج ہوگا۔ کم پیدائشی وزن کی شرح 15 فیصد کے قریب رک گئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اسٹنٹنگ کی شرح جو 22.3 فیصد تک کم ہوئی ہے لیکن یہ اب بھی اہداف کے حصول سے کم ہے۔ مزید برآں بچوں میں غذائیت کی کمی (ویسٹنگ) میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی جبکہ 15 سے 49 سال کی عمر کی خواتین میں خون کی کمی (انیمیا) میں اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح بالغوں میں موٹاپے کے نئے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران اس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، 2012 میں 12.1 فیصد سے بڑھ کر 2022 میں 15.8 فیصد ہو گیا ہے۔ اندازوں کے مطابق 2030 تک دنیا میں 1.2 بلین سے زیادہ موٹے بالغ افراد ہوں گے۔ غذائیت کے دوہرے بوجھ یعنی غذائی قلت اور موٹاپے کا ایک ساتھ موجود ہونا عالمی سطح پر تمام عمر کے گروہوں میں تیزی کے ساتھ بڑھا ہے۔ پتلاپن اور کم وزن گزشتہ دو دہائیوں میں کم ہوا ہے، جبکہ موٹاپے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
یہ رجحانات غذائیت کے پیچیدہ چیلنجوں کو اجاگر کرتے ہیں اور اس بات کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ دنیا 2030 تک سات عالمی تغذیہاتی اہداف میں سے کسی کو بھی حاصل کرنے کی راہ پر نہیں ہے۔
خوراک کی عدم دستیابی اور غذائی قلت بدتر ہو رہی ہے، جس میں کئی عوامل شامل ہیں، جن میں کھانے کی قیمتوں میں مسلسل افراط زرجو بہت سے ممالک میں لوگوں کے لیے معاشی فوائد کو کمزور کر رہا ہے۔ بڑے عوامل جیسے کہ تنازعات، موسمیاتی تبدیلی، معاشی بحران زیادہ عام اور سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ مسائل، غیر صحت بخش خوراک کے ماحول اور مستقل عدم مساوات جیسے بنیادی عوامل کے سب مل کر اب ایک ساتھ ہو رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کے انفرادی اثرات بھی مزید بڑھ رہے ہیں۔
گلوبل رپورٹ آن فوڈ کرائسز 2024اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ 2030 تک بھوک کو ختم کرنے کے ہدف کو حاصل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ 2023 میں، 59 ممالک یاعلاقوں میں تقریباً 282 ملین افراد یا 21.5 فیصد تجزیہ شدہ آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار تھی جنہیں فوری خوراک اور ذریعہ معاش کی امداد کی ضرورت تھی۔ 2022 کے بعد سے 24 ملین افراد کے اضافے کی وضاحت تجزیے کے دائرہ کار کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کچھ ممالک میں شدید غذائی عدم تحفظ کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے ظاہرہوتی ہے جس نے دیگر ممالک میں ہونے والی بہتری کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ورلڈ بنک کی ستمبر 2024 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے بہت سے ممالک میں گھریلو خوراک کی قیمتوں میں افراط زر ابھی بھی زیادہ ہے۔ 77اعشاریہ 3 فیصد کم آمدنی والے ممالک میں افراط زر 5 فیصد سے زیادہ ہے (جو 27 جون 2024 کی آخری اپ ڈیٹ کے بعد سے 18.2 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے)، 54.3 فیصد کم درمیانی آمدنی والے ممالک میں (8.7 فیصد پوائنٹس کم)، 44 فیصد زیادہ درمیانی آمدنی والے ممالک میں (8.0 فیصد پوائنٹس زیادہ)، اور 10.7 فیصد زیادہ آمدنی والے ممالک میں (0.2 فیصد پوائنٹس کم)۔ حقیقی معنوں میں، ان 167 ممالک میں سے 55.6 فیصد میں خوراک کی قیمتوں میں افراط زر مجموعی افراط زر سے زیادہ تھی ۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 27 جون 2024 کی آخری اپ ڈیٹ کے بعد سے زرعی اور برآمداتی قیمتوں کے اشاریے بالترتیب 1 اور 2 فیصد زیادہ بند ہوئے ہیں، جبکہ اناج کا اشاریہ تبدیل نہیں ہوا۔ مکئی اور چاول کی قیمتیں بالترتیب 3 فیصد اور 4 فیصد کم بند ہوئیں، جبکہ گندم کی قیمت 8 فیصد زیادہ ہوئی۔ سالانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو مکئی کی قیمتیں 17 فیصد، گندم کی 4 فیصد، اور چاول کی 3 فیصد کم ہیں۔ تاہم، جنوری 2020 کے مقابلے میں مکئی کی قیمتیں 7 فیصد زیادہ، گندم کی 3 فیصد زیادہ، اور چاول کی قیمتیں 41 فیصد زیادہ ہیں۔
دنیا بھر میں کتنے خوراک ضائع ہوتی ہے اور اس کا خوراک کی کمی کتنا اہم کردار ہے اعدادو شمار کیا کہتے
دنیا بھر میں جہاں پرغربت ، موسمیاتی تبدیلی خوراک کی کمی پراثرانداز ہوتیں ہیں وہیں ایک بہت بڑی وجہ خوراک کا ضیا ع بھی ہے ۔دی ورلڈ فوڈز کاؤنٹس کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا ہر سال خوراک کی حیران کن مقدار کھو دیتی ہے۔ دنیا بھرمیں انسانی استعمال ہونےوالے تمام کھانے کا ایک تہائی ضائع ہوجاتا ہے اور انسانی استعمال کے لیے موزوں 1.3 بلین ٹن خوراک اور 1.6 بلین ٹن نام نہاد “بنیادی مصنوعات کے مساوی” ضائع ہوجاتا ہے ۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی جون 2024 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ضائع ہونے والے کھانے کی کل لاگت 1 ٹریلین امریکی ڈالرز کے قریب بنتی ہے،رپورٹ کے مطابق خوراک کا یہ ضائع شدہ فضلہ گرین ہاؤس گیسز کو بھی شدید متاثر کرتا ہے۔
خوراک کا ضیاع ہر مرحلے پر ہوتا ہے چاہے وہ زرعی پیداوار ہو، فصل کٹائی کے بعد کا عمل ، ذخیرہ، پروسیسنگ، تقسیم، یا استعمال ہر قدم پر مختلف وجوہات کے باعث خوراک ضائع ہوتی ہے
زرعی پیداوار
فصلوں کے کیڑے، بیماریاں، غیر مؤثر فصل کٹائی اور آبپاشی کی وجہ سے زرعی پیداوار میں تقریباً 500 ملین ٹن خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔ یہ خوراک کے ضیاع کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
فصل کٹائی کے بعد کا انتظام اور ذخیرہ
فصلوں کی ذخیرہ اندوزی اور نقل و حمل کے دوران 350 ملین ٹن خوراک ضائع ہو جاتی ہے کیونکہ مناسب طریقے سے انہیں محفوظ نہیں کیا جاتا یا بروقت بازار تک نہیں پہنچایا جاتا۔
پروسیسنگ اور تقسیم
پروسیسنگ کے دوران خراب مشینری یا نقل و حمل میں نقص کی وجہ سے خوراک ضائع ہوتی ہے۔
استعمال
سپر مارکیٹوں، دکانوں اور گھریلو سطح پر تقریباً 35 فیصد ضائع شدہ خوراک جان بوجھ کر پھینکی جاتی ہے حالانکہ اس کا بڑا حصہ کھانے کے قابل ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف اور خوراک کا ضیاع
اقوام متحدہ نے 2030 تک خوراک کے ضیاع کو کم کرنے کے کچھ اہداف مقرر کیے ہیں جن میں پیداوار اور سپلائی چین میں خوراک کا نقصان کم کرنا۔
– خوردہ اور صارفین کی سطح پر فی کس خوراک کے ضیاع کو نصف کرنا
تاہم مسئلہ یہ ہے کہ خوراک کے ضیاع کا بڑا حصہ پیداوار اور سپلائی چین میں ہوتا ہے جبکہ خوردہ اور صارفین کی سطح پر ضیاع ایک تہائی ہے۔ 2030 تک دنیا کی آبادی 8.6 بلین تک پہنچنے کی توقع ہے اور فی کس ضیاع کو نصف کرنے کے باوجود مجموعی خوراک کا ضیاع بڑھنے کا خدشہ ہے ۔
خوراک کا ضیاع اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خوراک فراہم کرنا
خوراک کے ضیاع کا مسئلہ خاص طور پر سنگین ہے کیونکہ دنیا بھر میں 800 ملین سے زیادہ افراد بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں ضائع ہونے والی خوراک کا ایک چوتھائی حصہ ان تمام لوگوں کی بھوک مٹا سکتا ہے۔
2050تک مزید 2 بلین افراد دنیا کی آبادی میں شامل ہو جائیں گے، جنہیں خوراک کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں یا تو خوراک کی پیداوار میں 60 فیصد اضافہ کرنا پڑے گا یا پھر خوراک کا ضیاع بند کر دینا ہو گا۔
خوراک کا ضیاع اور ماحولیاتی مسائل
خوراک کی پیداوار میں توانائی، کیمیائی مادے، زمین اور پانی شامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خوراک کا ضیاع گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی اضافہ کرتا ہے۔خوراک کی پیداوار اور ضیاع کی وجہ سے عالمی سطح پر تقریباً 3.3 بلین ٹن کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے مساوی گرین ہاؤس گیسیں ہر سال ماحول میں خارج ہوتی ہیں، جو موسمیاتی تبدیلیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
خوراک کا ضیاع اور آب و ہوا کی تبدیلی
خوراک کے نظام سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج، پیداوار، ذخیرہ، پروسیسنگ، نقل و حمل اور پکانے کے مراحل میں ہوتا ہے۔خاص طور پر گوشت، بالخصوص گائے کے گوشت کی پیداوار، میتھین گیس کے اخراج کا باعث بنتی ہے، جوکاربن ڈائی اوکسائیڈ کے مقابلے میں 84 گنا زیادہ ماحول کو گرم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پاکستان کی صورت حال
2022 کے دوران آنے والے سیلاب نے پاکستان کے صوبوں بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ کو شدید متاثر کیا جس کی وجہ سے یہاں بسنے والے افراد کے مسائل میں اضافہ ہوا جن میں خوراک کا مسئلہ سب اہم ہے۔ انٹیگریٹیڈ فوڈ سیکورٹی فیز کلاسفیکیشن (آئی پی سی) کے مطابق مارچ سے جون 2024 کے درمیان پاکستان کے صوبوں بلوچستان، سندھ، اور خیبر پختونخوا کے کچھ حصوں میں تقریباً 8.6 ملین افراد جو تجزیہ شدہ آبادی کا 24 فیصد بنتے ہیں کوشدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے ۔ ان میں سے 1.6 ملین افراد آئی پی سی فیز 4 (ایمرجنسی) میں ہیں جبکہ 7 ملین افراد آئی پی سی فیز 3 (بحران) میں ہیں۔
یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو فوری مدد کی ضرورت ہے تاکہ ان کی خوراک تک رسائی کو بہتر بنایا جا سکے اور بحران کو مزید سنگین ہونے سے روکا جا سکے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا ئی ممالک عدم تحفظ سے شدید متاثر ہیں۔ گزشتہ سال جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس خطے میں 1.4 ارب افراد روزانہ دو وقت کا کھانا نہیں کھا پاتے ۔
2023کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھی جنوبی ایشیائی ممالک کی خراب درجہ بندی کو ظاہر کیا گیا ہے، جس میں پاکستان 102ویں، بھارت 111ویں، بنگلہ دیش 81ویں، نیپال 69ویں، اور سری لنکا 125 ممالک میں سے 60ویں نمبر پر ہے۔
دوسری جانب ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہوجاتی ہے، یہ خوفناک اعداد و شمار ہیں جو ملک میں پیدا ہونے والی کل خوراک کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے۔ یہ صرف وسائل کا ضیاع ہی نہیں بلکہ یہ انسانی جان اور وقار کی بے توقیری بھی ہے۔
خوراک کے ضیاع کو کم کرنا نہ صرف بھوک کے خاتمے میں مددگار ہو سکتا ہے بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *