یہ 2002 کی بات ہے کہ محلہ سلطان والا کے شفیق صاحب کی جانب سے اپنی بیوی کو طلاق کا پہلا نوٹس بھجوا گیا جس پر میں محلے کے چند معززین کے ہمراہ سابقہ کونسلر زرینہ شیخ ان کے گھر پہنچ گئ اور میاں بیوی کے آپس کے اختلافات ختم کروا کر صلح کروادی اور
یہ 2002 کی بات ہے کہ محلہ سلطان والا کے شفیق صاحب کی جانب سے اپنی بیوی کو طلاق کا پہلا نوٹس بھجوا گیا جس پر میں محلے کے چند معززین کے ہمراہ سابقہ کونسلر زرینہ شیخ ان کے گھر پہنچ گئ اور میاں بیوی کے آپس کے اختلافات ختم کروا کر صلح کروادی اور طلاق کا نوٹس واپس کروادیا۔محترمہ زرینہ شیخ جو کئی بار بلدیاتی انتخابات میں کونسلر منتخب ہوچکیں ہیں ان کے مطابق ہمارے بلدیاتی نظام میں اگر چہ خواتین کا کوئی خاص کردار نہیں ہے لیکن اس کے باوجود خواتین کونسلر بہت سے سماجی مسائل کو حل کرنے میں انتہائی اہم کردارادا کرتیں ہیں۔ ان کے مطابق عمومی طور خواتین کونسلر مخصوص نشستوں پر آتیں ہیں جس کی وجہ سے وہ ان سیاسی پارٹیوں کی مرہون منت ہوتیں لہذا وہ وہی کام کرتیں ہیں جو ان کی سیاسی جماعت ان سے کروانا چاہتی ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ فعال کردار ادا نہیں کر پا تیں لیکن اس کے باوجود وہ گھریلو مسائل کو حل کرنے میں اپنا مثالی کردار ادا کرتیں ہیں۔
زرینہ شیخ کہتیں ہیں کہ 2002کے بلدیاتی انتخابات میں ہر خاتون کونسلر براہ راست عوام کا ووٹ حاصل کرکے آئی تھی اور وہ اپنی یونین کونسل کے مسائل احسن طریقے سے حل کرواتی رہی ہیں۔اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا تھا کہ عوام کے ووٹ کی طاقت کی بدولت ان کی ہاوس میں بات سنی جاتی تھی اور ہاوس میں خواتین کی تعداد بھی زیادہ تھی مگر 2017کے بلدیاتی انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کی حکومت نے قوانین میں تبدیلی کرکے خواتین کو عوام کے ووٹ حاصل کرنے سے محروم کردیا اور مخصوص نشستیں کے ذریعے ان سمیت دس خواتین کونسلر منتخب ہوئی تھی۔مگر وہ اپنی توانائیاں احسن طریقے سے صرف نہ کر پائیں اور نہ ان کا بلدیاتی نظام میں کردار اہم رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے طور طلاق جیسے اہم معاشرتی مسئلے میں اپنا کردار اد کرتی رہی اور انہوں نے کئی گھر اجڑنے سے بچائے لہذا وہ کسی حد تک خواتین کے مسائل کو کم کرنے میں ضرور کامیاب ہوئیں۔
طلاق ہمارے معاشرے کا ایک ایسا المیہ ہے جو عدالتوں تک جانے سے پہلے حل ہونا چاہیئے اور اس میں خواتین کونسلرز اہم کردار ادا کرتیں ہیں
میونسپل کمیٹی جھنگ کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ تین بلدیاتی انتخابات میں خواتین کی نشست پر آنے والی تمام خواتین کونسلر کا ہاؤس میں کردار نہ ہونے کے برابر رہا ان خواتین کونسلر نے صرف گھریلوخواتین کے مسائل کسی حد تک ضرور حل کئے جن میں سب سے زیادہ طلاق کے مسائل تھے۔ میونپسل کمیٹی جھنگ کے نکاح و طلاق رجسٹریشن کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ آٹھ سال کے دوران سال 2017 میں 370،سال 2018میں 420،سال 2019 میں 370،سال 2020میں 390،سال 2021میں 415،سال 2022میں 440 اور گزشتہ سال 2023 میں601 خواتین کو طلاق ہوئی ہے جبکہ سال 2023 میں 1700نکاح رجسٹرڈ ہوئے تھے۔ یعنی کہ گزشتہ ایک سال میں جہاں 1700سو شادیاں انجام پائی تو دوسری جانب 601خواتین کی گھریلو ناچاکی اور مختلف وجوہات کی بنا پر طلاق ہوئی۔چونکہ اب میونسپل کمیٹی کا ایک اہلکار مصالحت کروانے کی کوشش کرتا ہے جس کا دونوں فریقین پر اتنا زیادہ اثرورسوخ نہیں ہوتا جس وجہ سے وہ صلح کروانے کی کوشش نہیں کرپاتے جبکہ اس کے برعکس بلدیاتی نظام میں خواتین کونسلرز جو کہ اگر چہ مخصوص نشستوں پر بھی آتیں تھیں لیکن وہ ان مسائل کو حل کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتیں تھیں ۔
طلاق کی شرح میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کے غیر منختب شدہ افراد ( سرکاری افسران ) کاہونا بھی ہے کیونکہ سرکاری افسران عوام سے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ کا فقدان ہوتا ہے۔بلدیاتی نمائندوں کا کردار کسی صورت نہیں بھلایا جاسکتا خاص طور پر خواتین کونسلرز کا جو اپنے محلہ یا علاقہ میں خواتین کے معاملات کو حل کروانے میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔اگر بلدیاتی نظام رائج ہوتا تو گلی محلوں میں بسنے والے افراد کے جہاں دیگر مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوتے وہیں طلاق کی شرح میں بھی نمایاں کمی واقع ہوتی۔
میونسپل کمیٹی کی رجسٹریشن برانچ کے انچارج باؤ محمد عثمان کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلدیاتی نظام کے فعال ہوتے ہوئے ہماری موینسپل کمیٹی میں خواتین کونسلرز کے کردار کی وجہ سے درج ہونے والی طلاق کی تعداد میں اب کے مقابلہ میں بہت کم تھی ۔ اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پہلے پیدائش ،اموات،نکاح اور طلاق کے معاملات یونین کونسل کے سطح پر سرانجام دیئے جاتے تھے اب تمام کام ان کے دفتر میں منتقل ہونے کی وجہ سے رش میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے دوسرا طلاق کے نوٹسز کے بعد مصالحت بھی ان کے دفتر کے ذمہ ہے وہ اپنی حد تک تمام کوشش کے بعد کچھ لوگوں میں صلح کرلیتے ہیں اور طلاق واپس لے لیتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ مانتے ہی نہیں اور طلاق موثر ہوجاتی ہے یا ان کے پاس طلاق کے آرڈر کورٹ سے آجاتے ہیں جس کو وہ رجسٹرڈ کرنے تک محدود ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی ادارے ہوں تو ان کا بوجھ ہلکا ہوسکتا ہے۔
اس معاملہ میں پاکستان مسلم لیگ ن کی مخصوص نشست پر نامزد ممبر صوبائی اسمبلی محترمہ عابدہ بشیر صاحبہ جو کہ متعدد بار مخصوص نشستوں کے ذریعے بلدیاتی نظام کا حصہ رہ چکی ہیں کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ ہماری خواتین کونسلر ہاوس میں تو ربڑ اسٹیمپ کے طور پر کام کرتی ہیں پارٹی پالیسی کو فالو کرنا انکی مجبوری ہوتی ہے۔اہم امور میں بھی مرد حضرات کمیٹیوں کے سربراہ ہوتے ہیں اور خواتین ممبران کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جاتا۔البتہ اپنے علاقے کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کروانے میں کامیاب رہتی ہیں جس میں طلاق سب سے اہم معاشرتی مسئلہ ہے جن میں خواتین کردار بہت اہم رہا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہے ہیں اس میں عمومی طور پر بچیوں کے رشتے خاندانی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاندان کے بزرگ ہی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے عمومی طور گھریلو ناچاقیوں میں اضآفہ ہوجاتا او رنوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے اس میں میرے سمیت بہے سی خواتین کا کردار بہت اہم رہا ہے اور ہم نے ایسے بہت سے مسائل کو حل کیا ہے ۔اب اگر ہاؤس کی بات کی جائے تو مرد ممبران کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ فنڈذ کی تقسیم میں بھی خواتین کو گرانٹ نہ ہی دی جائے بلکہ خواتین ممبران کی گرانٹ بھی کونسلر حضرات کو ہی دی جائے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ عمر رسیدہ ہیں اور عوامی مسائل اور انکے حل کروانے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن چیئرمین حضرات ان کو فیصلہ سازی میں شامل ہی نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی مشاورت کی جاتی ہے۔البتہ اگر وہ خواتین کی آواز ہاوس میں اٹھاتی ہیں تو مرد حضرات ان کو سپورٹ نہیں کرتے۔
سابق چیئرمین ضلع کونسل نواب بابر خان سیال کہتے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گھریلو مسائل کے حل میں خواتین کونسلرز کا کردار بہت اہم رہا ہے لیکن وہ اس بات کو رد کرتے ہیں کہ خواتین ربڑ اسٹیمپ کے طور کام کرتیں ہیں ۔انہوں نے دعوی کی کہ انہوں نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں اپنے حلقہ میں خواتین ممبران کے مطالبہ پر لڑکیوں کا ووکیشنل کالج اٹھار ہزاری کے علاقہ رشید پور میں تعمیر تو کروادیا لیکن کئ سال گزر چکے ہیں اس بلڈنگ میں کلاسز کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوسکا۔اگر خواتین ممبران ہوتی تو وہ حکومت پنجاب سے کلاسز کا آغاز کروانے میں معاون ثابت ہوسکتی تھی۔گورنمنٹ گرلز ہائی سکول پیر کوٹ سدھانہ جھنگ کی ٹیچر آمنہ کا کہنا تھا کہ ان کی فیملی میں وراثت کے معاملہ پر بہت سے مسائل پیدا ہوگئے تھے۔کچہریوں میں تاریخوں پر بے جا چکر کبھی تھانوں میں پنچایت کی وجہ سے سکول سے چھٹی لینا بہت مشکل تھا اور انکی مسلسل چھٹیوں کی وجہ سے طالبات کی تعلیم کا حرج بھی ہورہا تھا۔انہوں نے اپنے علاقہ کی خاتون کونسلر مصباح کریم سے اپنے مسئلہ کے بارے مشاورت کی تو انہوں نے علاقہ معززین کے ہمراہ ہمارے خاندان کے افراد کو سمجھایا اور انتہائی خوش اسلوبی سے ان کی خاندانی جائیداد کی وراثت کا معاملہ چند دنوں میں حل ہوگیا جس سے وہ تھانے اور کچہری کے چکروں کے ساتھ ساتھ بہت سے اخراجات سے بچ گئ تھی۔
میری مختلف لوگوں سے خواتین کی بلدیاتی نظام میں فیصلہ سازی کے موضوع پر گفتگو ہوئی عوامی رائے کے مطابق خواتین کا کردار ہمدردانہ اور مثبت رہا ہے اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں کے مسائل اپنے ذاتی سمجھ کر حل کروانے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں لیکن جب بات بلدیاتی نظام کا حصہ رہنے والی خواتین سے ہوئی تو وہ حکومتوں کی جانب سے بار بار قانون سازی اور ان میں تبدیلوں کے باعث انتہائی مایوس دیکھائی دی اور ایک ہی مطالبہ کرتی نظر آئی کہ حکومت پنجاب بلدیاتی نظام میں انہیں زیادہ پاور فل بنائیں تاکہ وہ منتخب ہوکر صیحح معنوں میں اپنے علاقوں میں خواتین کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ انکے مسائل اور ان کے حل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
رانا غلام عارف
رانا غلام عارف گزشتہ دو دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور مخلتف سماجی اور معاشرتی مسائل پر لکھتےہیں


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *