728 x 90

پاکستان میں آبادی کی اکثریت وٹامن ڈی اور سی کی کمی کا شکار کیوں؟

پاکستان میں آبادی کی اکثریت وٹامن ڈی اور سی کی کمی کا شکار کیوں؟

پاکستان بھر میں کیلشیم کی کمی کے باعث گھٹنوں اور دیگر درد کا ہونا عام بات ہو گئی ہے ایک سروے کے مطابق ابادی کا 30 سے 40 فیصد حصہ جوڑوں کی درد کی بیماری کا شکار ہے جن میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں ڈاکٹر کے مطابق پاکستان میں کیلشیم کی کمی کے امراض

پاکستان بھر میں کیلشیم کی کمی کے باعث گھٹنوں اور دیگر درد کا ہونا عام بات ہو گئی ہے ایک سروے کے مطابق ابادی کا 30 سے 40 فیصد حصہ جوڑوں کی درد کی بیماری کا شکار ہے جن میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں ڈاکٹر کے مطابق پاکستان میں کیلشیم کی کمی کے امراض میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے غیر ضروری سہولیات کا استعمال پاکستان کے عام و خاص دونوں افراد کو بری طرح متاثر کر رہا ہے ہڈیوں کے سرجن ڈاکٹر سجاد اور ڈاکٹر یاسین بھٹی کے مطابق جو لوگ سردی میں دھوپ کا استعمال نہیں کرتے سردی روکنے کے لیے ہیٹر اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں وہ زیادہ تر جوڑوں اور گھٹنوں کے درد کا شکار ہو رہے ہیں پاکستان میں ہر دوسرے ادمی کا وزن زیادہ ہے کیونکہ خوراک میں فروٹ اور دیگر چیزوں کا استعمال کم ہے جبکہ فاسٹ فوڈ کا استعمال زیادہ ہو گیا ہے جسم کو دھوپ لگانے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے اس لیے 40 سال یا اس سے زائد عمر کے لوگ کیلشیم کی کمی کا شکار ہو کر جوڑوں اور گھٹنوں کے درد کا شکار ہو رہے ہیں ہر دوسرے ادمی میں وٹامن ڈی تھری کی کمی ہے طبی ماہرین نے ایک سبرے کے بعد نتیجے کا بتایا ہے کہ اب زیادہ عمر والے افراد کام کاج نہیں کرتے اور گھروں میں رہتے ہیں ان میں کیلشیم کی کمی عام بات ہے کیونکہ اب نئے بننے والے گھروں میں اوپن سے ان کا رواج ختم ہو گیا ہے ہر وقت اے سی اور ہیٹر میں رہنے سے انسانی جسم اس کا عادی ہو جاتا ہے اس لیے ابادی کا زیادہ حصہ کیلشیم کی کمی کا شکار ہے جسے دوسری بیماریوں کے ساتھ ساتھ گھٹنوں اور جوڑوں کا درد بہت زیادہ ہو گیا ہے دودھ کا استعمال کم ہے جبکہ چائے کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے جو درد کی ایک بڑی وجہ ہے ملک میں جو اج کل دودھ مل رہا ہے وہ کیمیکل اور دیگر چیزوں سے بنایا جاتا ہے جو بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے جس سے کیلشیم کی وہ تعداد پوری نہیں ہوتی جو عام انسان جسم کو ضرورت ہوتی ہے پاکستان میں پی جانے والی چائے بہت ساری بیماریوں کی وجہ بن رہی ہے جس کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے پاکستان کے دریاؤں میں مچھلی کی تعداد بھی کم ہو گئی ہے کیونکہ دریا خشک ہوتے جا رہے ہیں فارمی مرغی فارمی مچھلی کا استعمال بڑھ گیا ہے یہ دونوں چیزیں انسانی جسم کی ضرورت کے مطابق کیلشیم پیدا نہیں کرتی جو کیلشیم قدرتی مچھلی میں ہوتا ہے یا دیسی مرغی میں یا دیسی انڈے میں وہ فارمی چیزوں میں نہیں ہو سکتا پاکستان میں سمندری مچھلی کا استعمال بہت کم ہے وہ بھی اومیگا تھری اور کیلشیم کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ ہے کیونکہ پاکستان میں مچھلی کھانے کے بارے میں عجیب و غریب قسم کے واقعات مشہور ہوئے ہوئے ہیں اس لیے سارا سال مچھلی نہیں کھائی جاتی کہا یہ جاتا ہے کہ جس مہینے میں رہے صرف اسی میں مچھلی کھانا چاہیے حالانکہ پوری دنیا سی فوڈ کھاتی ہے سارا سال جس کی واضح مثال جاپان چین ویتنام تھائی لینڈ اور دیگر ممالک ہیں حالانکہ ہمارے سمندر بھی ہمارے گندے دریاؤں نالوں نے خراب کر دیا ہے لیکن ابھی بھی ہمارا جھینگا مچھلی بہتر حالت میں ہے ہمارے یہاں سی فوڈ کے بارے میں مختلف قسم کی مذہبی فتوے لوگوں کو ان چیزوں سے کھانے سے منع کرتے ہیں ڈاکٹر کے مطابق جو لوگ واک نہیں کرتے اپنے جسم کو دھوپ نہیں لگاتے وہ وٹامن ڈی وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں مختلف قسم کی ادویات کا استعمال بھی انسانی جسم کو کمزور کر دیتا ہے نت نئی ادویات کی ایجادات اور بیماریوں نے انسان کو کمزور کر دیا ہے ڈاکٹر یاسین بھٹی کے مطابق گھٹنوں کے درمیان کرکری ہڈی ہوتی ہے جس کے اندر ائل ہوتا ہے جو واک نہ کرنے اور ورزش نہ کرنے کی وجہ سے اور وزن بڑھنے کے عوامل کی وجہ سے اس ائل کی کمی ہو جاتی ہے جس سے گھٹنوں اور جوڑوں کا درد شروع ہو جاتا ہے اور ہڈیوں میں خرابی شروع ہو جاتی ہے بیرون ممالک میں بڑی عمر کے لوگ اپنے سارے کام خود کرتے ہیں جاپان چین اس کی بہترین مثال ہے وہاں انسانوں کی اوسط عمر 90 سال ہے جبکہ ہمارے ہاں اس وقت عمر 40 سے 45 سال ہے پاکستان میں جوائنٹ خاندان میں کسی بڑے عمر کے ادمی کو دھوپ میں باہر نکلنے اور کوئی کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے جس سے وہ مزید بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اج کل تو نوجوان بھی ان بیماریوں کا شکار ہوتے نظر ارہے ہیں میں خود اس وقت 59 سال کا ہوں روزانہ کئی میل پیدل واک کرتا ہوں اور دوسروں سے زیادہ فٹ ہوں زندگی کو جتنا ارام دہ بنائیں گے مشکلات بڑھ جائیں گی ڈاکٹر کہتے ہیں کہ فروٹ کا جوس پینے کی بجائے فروٹ کو کھانا چاہیے پاکستان میں کچے سلاد کھانے کا رواج بھی نہیں ہے جو تمام قسم کی وٹامن فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے فارمیسی ڈاکٹر انوار چوہدری نے بتایا کہ غیر ضروری ادویات استعمال کرنے سے بھی وٹامنز کی کمی ہو جاتی ہے ہمیں ہر موسم کے پھل کو کھانا چاہیے اور بچوں کو بھی کھلانا چاہیے کسی نہ کسی کھیل کا حصہ بننا چاہیے اور ورزش کرنی چاہیے اگر ہر ادمی روزانہ ایک گھنٹہ واک کرے یا دو کلومیٹر پیدل چلے تو تو ان بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے ماہر نفسیات ڈاکٹر صبغت اللہ کے مطابق انسانی باڈی کو خوراک کے ساتھ ساتھ تمام وٹامنز کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو اس کو مختلف ذرائع سے ملتی ہیں اگر وٹامن کی کمی ہوگی تو انسان ذہنی طور پر بھی پریشان رہتا ہے اور اس کو بہت سارے برے برے خیالات اتے ہیں جن کو ہم منفی خیالات کہتے ہیں جو انسان کے دماغ پر برے اثرات چھوڑتے ہیں اس لیے ماحول دوست انوائرمنٹ میں زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے

یہ تحریر مصنف کی ذاتی آراء اور تحقیق پر مبنی ہے جس سے دی جھنگ ٹائمز کا متفق ہونا ضروری نہیں

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos