728 x 90

پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قوانین: عالمی پس منظر، قومی سفر اور موجودہ چیلنجز

پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قوانین: عالمی پس منظر، قومی سفر اور موجودہ چیلنجز

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور عوامی شفافیت ہمیشہ زیرِ بحث رہتی ہے، وہاں “معلومات تک رسائی” نہ صرف شہریوں کو حکومتی فیصلوں سے باخبر رکھنے کے لیے ضروری ہے بلکہ کرپشن کے خاتمے اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور عوامی شفافیت ہمیشہ زیرِ بحث رہتی ہے۔ وہاں “معلومات تک رسائی” نہ صرف شہریوں کو حکومتی فیصلوں سے باخبر رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ معلومات تک رسائی کرپشن کے خاتمے اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

دنیا میں اس حق کا آغاز 1766 میں سویڈن سے ہوا۔ جب Freedom of the Press Ordinance کے تحت پہلی بار عوام کو ریاستی معلومات تک رسائی دی گئیَ۔ بیسویں صدی میں یہ حق انسانی حقوق کے عالمی فریم ورک کا حصہ بنا۔ اقوام متحدہ کے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (UDHR) آرٹیکل 19 اور بین الاقوامی عہد نامہ برائے شہری و سیاسی حقوق (ICCPR) آرٹیکل 19نے ہر شہری کو معلومات تلاش کرنے اور پھیلانے کا حق دیا۔پاکستان نے ICCPR کی توثیق 23 جون 2010 کو کی۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی نے 2011 کے جنرل کمنٹ نمبر 34 میں وضاحت کی کہ معلومات تک رسائی ریاست کی صوابدید نہیں بلکہ شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ سی طرح اقوام متحدہ کا Convention against Corruption (UNCAC) 2003 میں منظور ہوا، جس کے آرٹیکل 10 میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے معلومات کی فراہمی کی ہدایت دی گئی۔ پاکستان نے اس معاہدے کی توثیق 2007 میں کی۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے بھارت، میکسیکو اور سری لنکا اس حق کے مضبوط قوانین رکھتے ہیں، جبکہ بعض ممالک میں قوانین موجود ہیں لیکن ان کا نفاذ کمزور ہے ۔

پاکستان میں قوانین کی تشکیل

پاکستان میں معلومات تک رسائی کا پہلا قانون فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس 2002 تھا۔ یہ قانون عوامی حق کو مکمل تحفظ نہ دے سکا۔ 2010 میں آئین میں 18 ویں تریم کی گئی ۔ آئین میں آرٹیکل 19-اے شامل کیا گیا جس نے معلومات تک رسائی کو آئینی حق تسلیم کیا۔بعد ازاں، 2017 میں Right of Access to Information Act نافذ ہوا اور پاکستان انفارمیشن کمیشن قائم کیا گیا۔

صوبائی قوانین

  • پنجاب اور خیبرپختونخوا نے 2013 میں اپنے قوانین متعارف کرائے، جن میں KPK کا قانون سب سے مؤثر سمجھا جاتا ہے۔
  • سندھ نے 2016 اور بلوچستان نے 2021 میں اپنے قوانین نافذ کیے گئے۔

موجودہ صورتِ حال

مگر عملی نفاذ اب بھی چیلنج ہے۔ رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ سرکاری ادارے اکثر معلومات فراہم کرنے میں تاخیر یا انکار کرتے ہیں، انفارمیشن کمیشنز کے پاس وسائل محدود ہیں، اور عوام میں اس حق کے استعمال کی آگاہی کم ہے۔

معروف صحافی و تجزیہ نگار عمر چیمہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مجموعی طور پر انفارمیشن کی کارکردگی کی بات کریں تو ان پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ ہم پنجاب، خیبرپختنخواہ اور وفاق کی بات کریں تو جب یہ قوانین بنے تو انہوں نے اس میں قدرے بہتر لوگ لگائے۔ اسوقت شاید حکومتوں کا یہ اندازہ تھا کہ ان کے  پاس چھپانے کو کچھ نہیں لیکن جب انہیں پہلے تمام کمیشنز کے کام اندازہ ہوا تو انہیں لگا نہیں انہیں تمام کیمشن میں ایسے لوگ ہونے چاہئے جو حکومت کو سپورٹ کریں ۔  اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ تمام کمیشن ڈمپنگ گراؤنڈ بن چکے ہیں اور اب یہ ہورہا کہ حکومت نے جب کسی  بندے کو ملازمت دینی ہے تو انہیں کمیشن میں لگایا جارہا ہے ۔انہیں  ملازمت بھی مل جاتی ہے اور وہ حکومت کا خیال بھی رکھتے ہیں  کیونکہ حکومت نے بھی توآخر ان کا خیال رکھا ہے انہیں نوکری دی ہے۔ حکومتوں کی کوشش یہی ہے کہ اب یہ تمام تر جدوجہد دم توڑ جائے۔

اکاؤنٹبیلیٹی لیب کے پروگرام منیجر سید رضا علی جو ان قوانین پر مختلف اخبارات میں لکھتے بھی رہتے ہیں ۔۔ رضا  کہتے ہیں کہ 2014 میں جب پنجاب کا پہلا انفارمیشن کمیشن بنا ، تو محدود وسائل کے باوجود اس نے  بہت اچھا کام کیا ۔ مختار احمد علی انفارمیشن کمشنر تھے تو بہت بہتر کام کیا گیا۔ اب تو صور ت حآل مخلتف ہوچکی ہے۔ اب وفاق کو بھی لکھتے رہے کہ ہمیں نامکمل جواب ملا ہے، لیکن وہ سنتے ہی نہیں کمپلینٹس کو بند کردیا جاتا ہے۔ رضا کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام قوانین بہت اچھے ہیں ، کم از کم اگر پنجاب کی حد تک وہ بات کریں تو، صرف ازخود معلومات کی فراہمی کو ہی مکمل طور پر لاگوکردیا جائے تو بہت بہتر نتائج ہونگے۔ اب جو صورت حال یہ کچھ تسلی بخش نہیں ہے۔

سنیئر صحافی نعیم احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے  قوانین کا نفاذ ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ اس سلسلے میں افسر شاہی کی مزاحمت ، تاخیری حربے اور بعض معاملات میں کھلم کھلا معلومات فراہم کرنے سے انکار ایک ایسی رکاوٹ ہے جو کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔  اسی طرح انفارمیشن کمیشن  کا کردار بھی سوالیہ نشان ہے۔ یہ ادارے شہریوں کی معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے کے لئے ایک معاون اور نگران کا کردار  ادا کرتے ہوئے سرکاری محکموں کو جوابدہ بنانے کی بجائے اکثر اوقات ان کی سہولت کاری کرتے  نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آر ٹی آئی قانون کے تحت معلومات کی فراہمی کی شرح انتہائی کم ہونے کے باوجود معلومات کی عدم فراہمی  اور کئی کئی مہینے کی تاخیر کے باوجود متعلقہ حکام کو جرمانوں یا قانون میں دی گئی دیگر سزاوں کی شرح انتہائی کم ہے۔ سرکاری محکموں اور انفارمیشن کمیشنز کا یہ کردار معلومات تک رسائی کی عوامی کوششوں کی مسلسل حوصلہ شکنی کا باعث بن رہی ہے۔

نعیم احمد کے مطابق حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی  طرف سے معلومات تک رسائی کے طریقہ کار کو مزید موثر اور شفاف بنانے کی  بجائے اس حوالے سے مسلسل عدم توجہ اور سیاسی عزم کی کمی بھی اس قانون پر عملدرآمد میں حائل ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر  شہری اب بھی اپنے اس حق سے  ناواقف ہیں اور جنہیں اس بارےمیں پتہ ہے وہ بھی سرکاری محکموں اور انفارمیشن کمیشنز کی حوصلہ شکنی کے باعث اس حوالے سے ایک، دو دفعہ کوشش کرنے کے بعد خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔  یہ مسائل  نہ صرف شہریوں کی معلومات تک رسائی میں رکاوٹ ہیں  بلکہ اس قانون پر عملدرآمد کے ذریعے افسر شاہی کو جوابدہ بنانے اورگڈ گورننس کے مقاصد کے حصول میں بھی رکاوٹ ہیں۔

معروف صحافی سعدیہ مظہر جو خود بھی معلومات تک رسائی پر کام کرنے میں اپنا خاص مقام رکھتیں ہیں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انفارمیشن کمیشنز کا قیام عوام کو مضبوط کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا لیکن سیاسی تعیناتیوں نے اس کا راستہ مکمل بند کر دیا ہے۔ وہ کمیشنز جنہوں نے اداروں کو جوابدہ بنانا تھا وہ اس وقت اداروں کے لیے کام کر رہے ہیں۔ معلومات تک رسائی کے حق پر اس سے بڑی ضرب کیا لگے گی ۔ سعدیہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سوالات پوچھنے پر نامناسب رویئے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر کمیشنز قانون کو بالاے طاق رکھتے ہوئے  فیصلے دیتےتا کہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنی پڑے اور وقت ضیاع اور معلومات تاخیر کا شکار ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہمیں عدالت  ہی جانا تھا تو کمیشنز کس بات کی بھاری  بھرکم تنخواہیں لے رہا ہے۔

سنیئر صحافی تجزیہ نگار کامران ساقی جو اس حوالے سے کئی آرٹیکل بھی لکھ چکے ہیں کہتے ہیں کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قوانین موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود معلومات تک رسائی ایک مشکل عمل ہے۔ انفارمیشن کمیشنز میں اکثر کمشنرز کی نشستیں خالی رہتی ہیں، جس کی وجہ سے درخواست گزاروں کو متعلقہ کمیشن سے مدد لینے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ڈیجیٹل ریکارڈ کا نہ ہونا بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

کامران کے مطابق ازخود معلومات کی فراہمی کی شق  صرف قانون کی کتابوں تک محدود نظر آتی ہے۔ اگر کسی بھی وفاقی یا صوبائی ادارے کی ویب سائٹ دیکھیں تو وہاں آر ٹی آئی کے بارے میں چند تعریفی جملے تو ضرور ملیں گے، لیکن وہ معلومات جو شہریوں کو بغیر درخواست دیے دستیاب ہونی چاہییں، وہاں موجود نہیں ہوتیں۔کامران ساقی کا کہنا ہے کہ پبلک سروس کے اداروں میں بھی فیس جیسی بنیادی معلومات کسی نوٹس بورڈ یا نمایاں جگہ پر آویزاں نہیں کی جاتیں۔امید کی جا سکتی ہے کہ جب شہری اپنے حق معلومات کا استعمال کرنا شروع کریں گے تو ادارے بھی معلومات فراہم کرنے کے عمل کو سنجیدگی سے لینا شروع کردیں گے۔

اہم نکتہ

اہم نکتہ یہی ہے کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قوانین عالمی معاہدوں اور آئینی اصلاحات کا نتیجہ ہیں۔ یہ قوانین شفافیت، بدعنوانی کے خاتمے اور جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لیے اہم ہیں۔ تاہم، حقیقی تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب ان پر مؤثر عملدرآمد ہو، اداروں کو جواب دہ بنایا جائے اور عوام میں اس حق کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے۔

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos