پاکستان میں دُنیا بھر کی طرح موسموں کی تبدیلی اور انسانی زندگی پر ردوبدل نے آنے والے وقت کی وراننگ دینی شروع کر دی ہے۔دُنیا کے وجود سے اب تک موسمی تبدیلوں اور دیگر انسانی حرکات نے دُنیا بھر میں سر سبز میدانوں اور جنگلوں کو تباہ کر دیا ہے۔دُنیا میں پہلے انسان سے
پاکستان میں دُنیا بھر کی طرح موسموں کی تبدیلی اور انسانی زندگی پر ردوبدل نے آنے والے وقت کی وراننگ دینی شروع کر دی ہے۔دُنیا کے وجود سے اب تک موسمی تبدیلوں اور دیگر انسانی حرکات نے دُنیا بھر میں سر سبز میدانوں اور جنگلوں کو تباہ کر دیا ہے۔دُنیا میں پہلے انسان سے لیکر اب تک اس سرزمین نے انواح و اقسام کے پودوں اور جانوروں کو جنم دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان اپنی ضروریات کے لیے جنگلات کی تباہی کرتا چلا گیا ہے۔جس سے قدرت کا توازن زمین میں اس طرح سے برقرار نہ رہ سکا جو کہ موسمی تغیرات کے مناسبت سے ہونا ضروری تھا۔
دُنیا فضائی آلودگی سے بھر گئی اور انسان کے ساتھ دیگر جانداروں کا جینا بھی محال ہو گیا ہے۔پانی کو انسانی فضلہ کے نکاس، دھواں اُگلتی چمنیوں اور نقل و حرکت کے ذرائع کی ترقی نے ماحول، ہوا اورپانی کو آلودہ کردیا ہے، پانی کی آلودگی نے آبی جانوروں کی نسل کی بقاء کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے، دُنیا کی ایک بڑی آبادی کی خوراک سی فوڈ(Seafood) ہے،اور اب اس آلودگی کی وجہ سے سی فوڈ میں زہریلے مادے پائے جانا ایک عام سی بات ہو گئی ہے،جوکہ انسانی صحت کے لیے تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔علاوہ ازیں پرندوں پر بھی موسمی تغیرات کا بہت اثر پڑ رہا ہے۔درخت تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، سر سبز میدان آبادی میں تبدیل ہو رہے ہیں۔G-4 & G-5موبائلز ٹاور زکی خطرناک ریڈی ایشنزسے فضائی آلودگی نے کئی قسم کی پرندوں کی نسل کو تباہی کے دھانے پہ لاکھڑا کیا ہے،جبکہ بعض پرندوں کی اقسام معدوم ہو چکی ہیں۔جو نسل تباہی کے دہانے پر ہے ان میں چڑیاں، کوئلیں وغیرہ نمایاں ہیں۔ اب پاکستان میں چڑیاں اور کوئلیں کم ہی نظر آتی ہے۔
ماحولیات پر کام کرنے والے سنیئر جرنلسٹ محمود عالم خالد جو کہ ماہانہ فروزاں کراچی کے ایڈیٹر بھی ہیں سے جب اس سلسلے میں بات ہوئی کہ دُنیا بھر کی طرح پاکستان جس طرح ماحولیات کی تبدیلوں کے اثرات سے متاثر ہو رہا ہے، کیا اس کی روک تھام کے لیے پاکستانی حکومت یا دیگر ادارے اس پر کام کر ہے ہیں تو انہوں نے بتلایا کہ حکومت پاکستان نے محکمہ ماحولیات اور دیگر ادارے تو بنادیے ہیں لیکن جس طرح سے کام ہونا چاہیئے ویسے کام نہیں ہو رہا، کام کی رفتار بہت سست ہے۔ حکومتی سرخ فیتہ، افسران کی مجبوری، فنڈز کی کمی اور عوام الناس میں ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔درختوں کی کٹائی ملک بھر میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار، آبادی میں بے ہنگم اضافہ، آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی مؤثر پلان نہ ہونا، پاکستان کو گلوبل فارمنگ کی تباہی کے قریب لے جا رہا ہے،درجہ حرارت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان میں نومبر چل رہا ہے لیکن سردی، بارش کا دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔البتہ فضائی آلودگی سموگ کی صورت میں پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، قصور، پشاور، فیصل آباد، اوکاڑہ، ساہیوال، وغیرہ میں تباہی کی خبر لا رہی ہے۔سموگ کی وجہ سے حکومت نے سموگ ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے، اور ماسک پہننے کو ضروری قرار دینے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔
ہر سال اکتوبر، نومبر، اور دسمبر میں چاول(مونجی) کی فصل کی باقیات کو جلانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، انڈین بارڈر کے قریب زیادہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔انڈین بارڈر پر موجود کسان دھان کی فصل کو جلا کر پاکستان کو فضائی آلودگی کی بڑی پریشانی سے دوچار کردیتے ہیں۔ دوسری طرف پانی کے زیر زمین ذخائر کی سطح میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔پہلے دوران بورنگ صاف پانی 40 فٹ یا 60فٹ تک کی گہرائی سے نکل آتا تھا لیکن اب زیر زمین زخائر میں کمی کے باعث پانی 100 فٹ نیچے تک چلا گیا ہے، جس سے نہروں، دریاؤں، جھیلیں اور تالاب تباہی کے دھانے پر ہیں۔ آئے روز بڑے شہروں میں درختوں کی کٹائی، سر سبز زمینوں کو رہائشی کالونیوں میں تبدیل کرنا، نقل مکانی کرنا، انسانی ترقی، پٹرول، ڈیزل اور کوئلے سمیت دیگر دھاتوں سے پیدا ہونے والے دھوئیں، جراثیم، شدید حبّس، گردوغبار، آلودگی پیدا کرنے والے عناصر، جن میں مختلف گیسز، سلفر آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ شامل ہیں،ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایسی آلودگی پیدا کر رہی ہیں جو کہ نہ صرف ماحول کوبلکہ زمین پر رہنے والے انسان سمیت سبھی جانداروں کو متاثر کر رہی ہیں۔
آئے روز کئی ترقی یافتہ ملکوں میں رہائشی کالونیاں بنانے کی غرض سے جنگلات کو جان بوجھ کر آگ لگا دی جاتی ہے، اور کئی ملکوں میں تو گرمی کی شدت و حدت سے ہی جنگلات خود آگ پکڑ لیتے ہیں جیسا کہ آسٹریلیا، امریکہ وغیرہ میں آگ لگنے کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔امریکہ کی ایک ریاست کیلی فورنیا میں جہاں کئی لاکھ ایکڑ جنگلات پائے جاتے ہیں، آگ لگنے کے حادثات میں ہزاروں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں اور اربوں روپے کی مالیت کے درخت بھی جل جاتے ہیں۔وہاں سے حکومت مقامی لوگوں کے فوری طور پر انخلاء کو حکم دے دیتی ہے اور ان کی مناسب رہائش کو بندوبست کیا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیز ممالک میں اگر کسی جنگل میں آگ لگ جائے تو حکومت کے پاس نہ تو آگ بجھانے کا کوئی معقول انتظام ہے اور نہ ہی لوگوں کو اس بارے میں کوئی آگاہی ہے۔پاکستان میں ایک سروے کے مطابق جنگلات اب کل رقبے کا صرف 5% ہی رہ گئے ہیں۔کیونکہ ہم درختوں کی کٹائی پر زیادہ دے رہے ہیں، اس کے علاوہ نا جائز طور پر بھی مافیا درختوں کی کٹائی سے لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ چونکہ ہمیں درختوں کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ نہیں ہے، اس لیے اس طرف توجہ بھی نہیں ہے۔حکومت ہر سال ہزاروں، لاکھوں درخت لگانے کا اعلان کرتی ہے، لیکن اس میں سے کتنے درخت لگتے ہیں اور کتنے ضائع ہوتے ہیں اور کتنے کاغذات میں کرپشن کرنے کے لیے ظاہر کیے جاتے ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں۔لاہور، کراچی جیسے بڑے شہروں میں پارکوں، نہروں میں درختوں کی بہتات تھی لیکن ہم نے ان کو بھی میٹرو بس، اورنج ٹرین چلانے کے چکر میں کاٹ دیا ہے۔آزاد کشمیر سمیت خیبرپختونخواہ، بلوچستان میں ٹمبر مافیا نے جنگلوں کو بیدردی سے کاٹ کر ان علاقوں کا حسن برباد کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ماحول آلودہ ہو گیا ہے اور لوگوں کا سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے،پہاڑی علاقوں میں سبزہ اور درخت تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، سولر سسٹم کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ماہرین ماحول کہتے ہیں کہ سولر سے جوتوانائی حاصل کی جارہی ہے اس سے بھی ماحول خراب ہو رہا ہے۔درجہ حرارت بڑھنے اور ائیر کنڈیشن کا زیادہ استعمال بھی ہمارے ماحول کے ساتھ ہماری صحت کا دُشمن بن گیا ہے۔
تیز رفتار ترقی نے جہاں انسانوں کو بہت کچھ دیا ہے وہاں قدرتی حسن کا خودکار نظام بھی خراب کردیا ہے۔جو درخت ہمیں ہوا، آکسیجن فراہم کرتے تھے وہ خود انسانی ہاتھوں سے خراب ہو رہے ہیں۔ پھلدار درخت پاکستان سے ختم ہو رہے ہیں، شفاف پانی کا ملنا ایک خواب رہ گیا ہے۔ قدرتی چشموں میں پانی کی کمی ہو رہی ہے۔ شہروں میں پینے کا پانی اور سیوریج کا پانی مل کر کڑوا ہو گیا ہے جو کہ اب پینے کا قابل نہ رہا ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں کو فلٹر پلانٹ کے نام پر ایک نئے کاروبار کا موقع مل گیا ہے۔جگہ جگہ فلٹر پلانٹ صاف پانی کے نام پر لوگوں میں زہر بانٹ رہے ہیں۔ جب کسی ملک سے سبزہ ختم ہو جاتا ہے اور درخت کم ہو جائیں، باغات کی جگہ کالونیاں بن جائیں اور پانی کے بہتے دھارے گندگی سے اٹ جائیں تو پھرقدرت کا نظام تہس نہس ہو گا تو کیا ہو گا؟ ضرورت اس مر کی ہے کہ پاکستان سمیت دُنیا بھر درختوں کی کٹائی، فضائی آلودگی اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے اہم مسائل جنم لیتے ہیں۔اور ان جیسے فوری نمٹنے والے مسائل کی طرف توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے۔


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *