728 x 90

شعور اور تربیتی کورسز کی کمی, ایک حقیقت پر مبنی تجزیہ

شعور اور تربیتی کورسز کی کمی, ایک حقیقت پر مبنی تجزیہ

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہر 10 میں سے 7 افراد کے پاس کوئی فنی یا پیشہ ورانہ تربیت نہیں؟ یہ صرف ایک حقیقت نہیں بلکہ ہمارے نوجوانوں اور مستقبل کی معیشت کے لیے ایک ہونے والا زلزلہ ہے۔ جب دنیا تیزی سے ٹیکنالوجی، صنعتی تبدیلی، اور ڈیجیٹل انقلاب کی طرف بڑھ رہی

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہر 10 میں سے 7 افراد کے پاس کوئی فنی یا پیشہ ورانہ تربیت نہیں؟ یہ صرف ایک حقیقت نہیں بلکہ ہمارے نوجوانوں اور مستقبل کی معیشت کے لیے ایک ہونے والا زلزلہ ہے۔ جب دنیا تیزی سے ٹیکنالوجی، صنعتی تبدیلی، اور ڈیجیٹل انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے، وہ ممالک جو ہنر مند افرادی قوت اور مضبوط تربیتی نظام رکھتے ہیں، وہ اقتصادی دوڑ میں آگے ہیں۔ بدقسمتی سے، پاکستان اس دوڑ سے مسلسل پیچھے رہ رہا ہے۔

تربیت کا حقیقت پر مبنی مطلب

تربیتی کورسز صرف ہنر سکھانے تک محدود نہیں ہوتے، یہ نوجوان کو سوچنے، سمجھنے اور مشکل حالات میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ جب کوئی فرد عملی تربیت حاصل کرتا ہے تو اس کے اندر اعتماد، ذمہ داری اور خود انحصاری پیدا ہوتی ہے۔ ایسے تربیت یافتہ افراد نہ صرف روزگار بہتر طریقے سے تلاش کرتے ہیں بلکہ اپنی ذات اور ملک کے لیے بھی کام آتے ہیں۔

پاکستان کی تشویشناک صورتِ حال

PIDE کے مطابق پاکستان کی لیبر فورس میں لگ بھگ 70 فیصد افراد کے پاس کوئی فنی تربیت نہیں ہے، جبکہ جرمنی، چین، جنوبی کوریا جیسے ممالک میں یہ شرح 60–80 فیصد تک ہے، جو انہیں عالمی مارکیٹ میں مسابقتی بناتی ہے۔

NAVTTC کے مطابق ہر سال لگ بھگ تقریباً 20 لاکھ نوجوان لیبر مارکیٹ میں آتے ہیں، لیکن صرف 5 لاکھ کو ہی تکنیکی یا ووکیشنل تربیت ملتی ہے۔ نتیجے میں نوجوان یا بے روزگار رہ جاتے ہیں یا کم اجرت والی ملازمتوں کے محتاج۔

ڈان  نیوز میں 11 جون 2025 میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پاکستان میں کل لیبر فورس تقریباً 71.8 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ بیرون ملک رجسٹرڈ پاکستانی کارکنان میں 50٪ (366,0 35٪ (255,706) افراد ہنر مند باقی 15٪ نصف ہنر مند یا اس سے زائد تربیت یافتہ افراد ہیں خصوصاً نیم ہنر مند یا اعلیٰ ہنر مند افراد۔ یہ اعداد و شمار، چونکہ بیرون ملک ملازمت کے لیے رجسٹرڈ افراد کی تمثیل ہیں، اس سے ملک میں حقیقی طور پر ہنر مند یا غیر ہنر مند افراد کی مجموعی تعداد کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ تاہم، بیرون ملک رجسٹرڈ لیبر فورس سے منظور شدہ فیصد واضح اشارہ دیتے ہیں کہ رجسٹرڈ کارکنان کا تقریباً 65٪ حصہ غیر ہنر مند یا کم ہنر مند شعبوں سے تعلق رکھتا ہے، جن میں تعمیرات، گھریلو کام، زرعی کام وغیرہ شامل ہیں۔92) افراد غیر ہنر مند صرف 35٪ کارکنان ہنر مند یا نیم ہنر مند ہیں جو پاکستان کے مجموعی لیبر فورس میں ہنر مند افراد کی کمی کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے

دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک اس وقت شدید افرادی قلت کا شکار ہیں اور فوری طور پر لاکھوں ہنر مند افراد کی ضرورت ہے، مگر پاکستان اس عالمی موقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام ہو رہا ہے۔ جرمنی میں اس وقت 700,000 سے زائد اسامیوں پر ہنر مند افراد کی کمی ہے اور اندازہ ہے کہ 2035 تک یہ کمی بڑھ کر 7 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جرمنی نے Skilled Workers’ Act متعارف کرایا ہے جو ویزا کے عمل اور بیک گراؤنڈ چیک کو تیز کرتا ہے، جب کہ بھارت سمیت کئی ممالک سے باقاعدہ معاہدے کیے گئے ہیں، جن کے تحت صرف بھارت سے ہر سال 90,000 ہنر مند افراد جرمنی جائیں گے۔ اسی طرح آسٹریلیا میں بھی الیکٹریشنز، نرسز اور ٹیکنیشنز کی شدید کمی ہے اور صرف الیکٹریشنز کی طلب 2030 تک 32,000 سے 42,500 تک پہنچنے کا امکان ہے۔ 2023 Skills Priority List کے مطابق آسٹریلیا میں 36% اہم پیشوں میں افرادی قلت ہے، جس میں صحت، آئی سی ٹی، انجینئرنگ اور ٹریڈز شامل ہیں۔ وہاں Skills in Demand visa متعارف ہونے کے بعد ویزا درخواستوں اور منظوری کی شرح میں 33–53% اضافہ ہوا ہے، تاہم ویزا پراسیسنگ میں تاخیر اب بھی ایک چیلنج ہے۔ اس عالمی تناظر میں پاکستان کے لیے سنہری موقع ہے کہ اپنے نوجوانوں کو عالمی معیار کی تربیت دے، بین الاقوامی سرٹیفیکیشن فراہم کرے اور سرکاری سطح پر ہنر مند افرادی قوت کی برآمد کو پالیسی کا حصہ بنائے، ورنہ بھارت اور فلپائن جیسے ممالک کی طرح عالمی مارکیٹ میں جگہ بنانا مزید مشکل ہو جائے گا۔

پاکستان میں تربیت کے فقدان کو کیسے پر کیا جائے؟

1.            قومی اسکل ڈیولپمنٹ پروگرامز تیار کیے جائیں، جیسے جرمنی کا اقوام متحدہ کی مرکزی نظام یا آسٹریلیا کا SID پروگرام—تربیت کے بعد براہِ راست ملازمت کے راستے ہوں۔

2.            پاکستان میں ہی تربیتی مراکز کی توسیع خاص کر خواتین کے لیے تاکہ آبادی کے نصف حصے کو مؤثر طریقے سے شامل کیا جا سکے۔

3.            تعلیمی ادارہ اور صنعت کا اتحاد مضبوط کیا جائے تاکہ نصاب مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق تیار ہو اور روزگار مواقع بڑھیں۔

4.            سرکاری روزگار پروگرام، جیسے Prime Minister’s Youth Programme، میں تربیت کے گریڈ کو مؤثر طریقے سے بڑھایا جائے۔

5.            عالمی ماہرین سے اشتراک، جاپانی یا جرمن ماہر تربیتی اداروں جیسے موڈلز کو اپنایا جائے۔

6.            خواتین کی شمولیت کو خاص سرکاری اور نجی منصوبوں کے ذریعے فروغ دیا جائے، تاکہ اقتصادی اور سماجی فوائد میں اضافہ ہو۔

شعور اور تربیت ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ جب ہم شعور کی بات کرتے ہیں تو ہمیں صرف سوچنے کی نہیں، سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت کی بات کرنی چاہیے، اور یہی صلاحیت تربیتی کورسز کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نوجوان بااختیار، خود کفیل اور دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو، تو ہمیں شعور اور تربیت دونوں پر ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔

حکومت کو چاہیے کہ ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کا دائرہ وسیع کرے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ انڈسٹریز اور تعلیمی اداروں کے درمیان مضبوط روابط قائم کیے جائیں تاکہ مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تربیت فراہم کی جا سکے۔ تربیتی کورسز کو تعلیمی نصاب میں شامل کر کے ہر طالب علم کو کسی نہ کسی ہنر سے آراستہ کیا جائے۔ عالمی رجحانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے نئی پالیسیز بنائی جائیں تاکہ پاکستان بھی اسکلڈ لیبر کی عالمی مارکیٹ کا حصہ بن سکے۔

پاکستان میں تربیت اور شعور کی کمی صرف تعلیمی فقدان نہیں بلکہ ایک قومی اقتصادی خطرہ ہے۔ اس خلا کو ٹھوس نظام اور پالیسیاں لاگو کرکے کیسے پر کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں بھی اسی سمت میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔تربیت کو قومی ترجیح بنائیے، شعور کو فروغ دیجئے، اور نوجوان کو خود مختار مستقبل کے لائق بنائیے۔

منال یونیورسٹی آف جھنگ کی طالبہ ہیں اور معاشی اورمعاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتیں ہیں

مصنف کی تحریر ان کی ذاتی آراء اور تحقیق پر مبنی ہے ادارہ دی جھنگ ٹائمز کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

منال
AUTHOR
PROFILE

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos