728 x 90

پاکستان میں پرندوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات

پاکستان میں پرندوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات

موسمیاتی تبدیلی اس وقت دنیا کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اس کے اثرات تیزی سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر حیاتیاتی تنوع (Biodiversity) پر پاکستان میں پرندوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ایک ایسا مسئلہ ہے جو صرف ماحولیات تک محدود نہیں بلکہ معیشت، زراعت اور انسانی زندگی کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اس وقت دنیا کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اس کے اثرات تیزی سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر حیاتیاتی تنوع (Biodiversity) پر پاکستان میں پرندوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ایک ایسا مسئلہ ہے جو صرف ماحولیات تک محدود نہیں بلکہ معیشت، زراعت اور انسانی زندگی کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ ملک کے مختلف خطوں میں درجہ حرارت کے غیر معمولی اتار چڑھاؤ، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی اور خشک سالی کے بڑھتے ہوئے خطرات نے پرندوں کے قدرتی مسکن، افزائش نسل اور ہجرتی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

پاکستان میں پرندے نہ صرف خوبصورتی اور قدرتی توازن کی علامت ہیں بلکہ وہ ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ بیجوں کی ترسیل، حشرات کی آبادی کے کنٹرول اور ماحول کی صفائی میں مدد دیتے ہیں۔ تاہم، موسمیاتی تبدیلی نے ان کے رویوں اور بقا کے امکانات کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جس کے اثرات آنے والی نسلوں تک جا سکتے ہیں۔

درجہ حرارت میں اضافہ اور پرندوں کے مسکن کی تبدیلی

گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس اضافے نے برفانی علاقوں، دریاؤں اور جھیلوں کے ماحولیاتی نظام کو بگاڑ دیا ہے۔ شمالی علاقوں میں موجود برف پگھلنے سے پانی کے بہاؤ میں اضافہ اور بعد میں خشک سالی کے ادوار نے آبی پرندوں کو شدید متاثر کیا ہے۔

منچھر جھیل، ہالیجی جھیل، کلری جھیل اور کینجھر جھیل وہ مقامات ہیں جہاں کبھی لاکھوں ہجرتی پرندے سردیوں میں پناہ لیتے تھے۔ مگر اب پانی کی سطح کم ہونے اور آلودگی بڑھنے کی وجہ سے ان کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ IUCN اور WWF پاکستان کی رپورٹس کے مطابق صرف پچھلے 15 سالوں میں ہجرتی پرندوں کی تعداد میں تقریباً 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

ہجرتی پیٹرن (Migratory Patterns) پر اثرات

پاکستان وسطی ایشیائی فلائی وے (Central Asian Flyway) کے راستے میں واقع ہے، جو دنیا کے اہم ترین پرندوں کے ہجرتی راستوں میں سے ایک ہے۔ یہ راستہ سائبیریا سے شروع ہو کر پاکستان، بھارت اور خلیجی خطوں تک پھیلا ہوا ہے۔ مگر موسمیاتی تبدیلی کے باعث سردیوں کے اوقات میں کمی، خوراک کی قلت اور پانی کی کمی کے باعث پرندے اپنے روایتی راستے بدلنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

اب بہت سے پرندے، جیسے سائبیرین کرین، فلیمنگو، اور تلور (Houbara Bustard)، پہلے سے کم تعداد میں پاکستان آتے ہیں یا کچھ پرجاتیاں مکمل طور پر دوسرے راستوں کا انتخاب کرنے لگی ہیں۔ اس رجحان سے نہ صرف ماحولیاتی توازن متاثر ہو رہا ہے بلکہ پاکستان کی مقامی معیشت (خصوصاً ایگرو ٹورازم اور وائلڈ لائف فاریسٹ سروسز) پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔

افزائش نسل پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات

درجہ حرارت اور بارش کے نظام میں تبدیلی نے پرندوں کی افزائش نسل کے وقت اور شرح کو بھی بدل دیا ہے۔ بہت سے پرندے مخصوص مہینوں میں انڈے دیتے ہیں اور ان کے بچے مخصوص درجہ حرارت میں پلتے ہیں۔ جب درجہ حرارت غیر متوقع طور پر بڑھ یا کم ہو جاتا ہے، تو ان کے بچے یا تو زندہ نہیں رہ پاتے یا قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں پرندوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا ایک بڑا مظہر یہ ہے کہ کچھ مقامی پرندے جیسے چڑیا، کوئل، مینا اور فاختہ شہروں میں اپنی نسل برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ دوسری جانب، پہاڑی علاقوں کے پرندے جیسے برفانی عقاب (Snow Partridge) اور ہمالیائی مونال درجہ حرارت بڑھنے سے اپنی قدرتی حدود سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہیں۔

خوراک اور بقا کا بحران

موسمیاتی تبدیلی نے زرعی پیداوار پر بھی اثر ڈالا ہے، جس سے پرندوں کے خوراکی ذرائع کم ہو گئے ہیں۔ خشک سالی، شدید گرمی، اور زمین کے کٹاؤ نے درختوں اور پودوں کی افزائش کو متاثر کیا، نتیجتاً کیڑے مکوڑوں کی تعداد گھٹ گئی — جو پرندوں کے لیے بنیادی خوراک کا ذریعہ ہیں۔

پاکستان کے میدانی علاقوں میں چکّور، تیتر اور بلبل جیسی پرندوں کی اقسام اب پہلے سے کم دکھائی دیتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں جہاں پہلے صبح و شام پرندوں کی چہچہاہٹ معمول تھی، وہاں اب خاموشی چھا چکی ہے۔ اس صورتحال سے ماہرینِ ماحولیات کو خدشہ ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو آنے والے بیس سالوں میں کئی پرندوں کی اقسام ناپید ہو سکتی ہیں۔

مہاجر آبی پرندے جیسے ڈالمیشین پیلیکن، بلیک ہیڈڈ آئیبس، اور پینٹڈ سٹارک کی آبادی میں کمی کی ایک بڑی وجہ مسکن کا نقصان اور حد سے زیادہ شکار بھی ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ موسمیاتی دباؤ اور شکار کس طرح ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔ شدید خشک سالی اور پانی کی کمی پرندوں کو قدرتی طور پر محدود اور بکھرے ہوئے گیلے علاقوں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ 

شہری ترقی اور مسکن کی تباہی

شہری علاقوں میں تیزی سے بڑھتی آبادی اور تعمیراتی سرگرمیوں نے بھی پرندوں کے قدرتی مسکن تباہ کر دیے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی، ندی نالوں پر تجاوزات اور زرعی زمینوں کی کمی نے پرندوں کے گھونسلہ بنانے کے امکانات کم کر دیے ہیں۔

کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کی سطح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ایسی فضا میں پرندوں کے سانس لینے اور اڑان بھرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ نتیجتاً شہری پرندے جیسے کوّا، فاختہ، چڑیا اور بلبل اپنی بقا کے لیے دیہی یا نیم شہری علاقوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔

قدرتی آفات اور فوری خطرات

موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے سیلاب، خشک سالی، طوفان اور ہیٹ ویوز براہِ راست پرندوں کی بقا پر حملہ کر رہے ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب میں ہزاروں پرندے بہہ گئے اور ان کے گھونسلے تباہ ہو گئے۔ بلوچستان اور سندھ کے کئی علاقوں میں شدید گرمی کے باعث درجنوں پرندے پانی اور سایہ نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب محض ایک ماحولیاتی اصطلاح نہیں بلکہ ایک زمینی حقیقت ہے جو ہر جاندار کو متاثر کر رہی ہے۔

تحفظی اقدامات اور حل

پاکستان میں کچھ تنظیمیں اور ادارے اس مسئلے پر فعال طور پر کام کر رہے ہیں۔ WWF Pakistan، IUCN، Sindh Wildlife Department، Punjab Forest Department اور کئی غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) پرندوں کے تحفظ کے لیے آگاہی مہمات چلا رہی ہیں۔

ان اقدامات میں درج ذیل شامل ہیں:

  • ہجرتی راستوں کی نگرانی اور ریکارڈنگ
  • غیر قانونی شکار پر پابندی
  • آبی ذخائر کی بحالی اور شجر کاری مہمات
  • عوامی آگاہی اور تعلیمی پروگرام

تاہم یہ اقدامات اس وقت تک کافی نہیں جب تک حکومتی سطح پر موسمیاتی پالیسیوں میں پائیدار ماحولیات کو مرکزی حیثیت نہیں دی جاتی۔

مستقبل کی حکمتِ عملی

پاکستان کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی معاہدوں جیسے Paris Climate Agreement اور Convention on Migratory Species پر مؤثر عمل درآمد کرے۔ مزید یہ کہ مقامی سطح پر:

  • گرین زونز اور پرندوں کے محفوظ مسکن قائم کیے جائیں۔
  • شہری علاقوں میں درخت لگانے کے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر شروع کیے جائیں۔
  • تعلیمی اداروں میں ماحول دوست نصاب شامل کیا جائے۔
  • عوام کو موسمیاتی شعور دینے کے لیے میڈیا کا کردار بڑھایا جائے۔

اہم نکتہ

پاکستان میں پرندوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی ذمہ داری ہے۔ پرندے ہمارے قدرتی ورثے کا حصہ ہیں، اور ان کا تحفظ دراصل ہماری بقا کی ضمانت ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے مؤثر اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں نہ صرف پرندوں کی چہچہاہٹ خاموش ہو جائے گی بلکہ قدرتی توازن بھی بگڑ جائے گا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رویوں، طرزِ زندگی اور پالیسیوں میں ایسی تبدیلی لائیں جو نہ صرف پرندوں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کے تحفظ کی ضمانت دے۔ کیونکہ جب فضا میں پرندے خوشی سے اڑتے ہیں، تو یہ دراصل ایک صحت مند اور متوازن ماحول کی علامت ہوتی ہے۔

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos