728 x 90

پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد: قوانین موجود، نفاذ کمزور ، عالمی اداروں کی تشویش

پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد: قوانین موجود، نفاذ کمزور ، عالمی اداروں کی تشویش

پاکستان عالمی صنفی مساوات کے پیمانوں میں سب سے نچلے درجے پر ہے اور ملک میں خواتین کے خلاف جسمانی، جنسی اور آن لائن تشدد کے واقعات تشویشناک رفتار سے سامنے آ رہے ہیں۔ قانون سازی کئی سطحوں پر موجود ہے، لیکن بین الاقوامی ادارے اور مقامی این جی اوز نفاذ، شواہد کی فراہمی اور متاثرین تک رسائی میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد: قوانین موجود، نفاذ کمزور عالمی اداروں کی تشویش ۔ عالمی درجہ بندی میں پاکستان نچلے درجے پرفائز۔

پاکستان عالمی صنفی مساوات کے پیمانوں میں سب سے نچلے درجے پر ہے اور ملک میں خواتین کے خلاف جسمانی، جنسی اور آن لائن تشدد کے واقعات تشویشناک رفتار سے سامنے آ رہے ہیں۔ قانون سازی کئی سطحوں پر موجود ہے، لیکن بین الاقوامی ادارے اور مقامی این جی اوز نفاذ، شواہد کی فراہمی اور متاثرین تک رسائی میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عالمی اور مقامی منظرنامہ اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟

عالمی سطح پر WHO کی تازہ گائیڈ لائنز کے مطابق تقریباً ایک تہائی خواتین زندگی میں کسی نہ کسی وقت اپنے پارٹنر یا کسی غیر شریک کے ذریعے جسمانی/جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں؛ جنوبی ایشیا میں شرحیں عالمی اوسط سے ملتی جلتی یا بعض اوقات بلند ہیں۔ یہ عالمی تخمینے 2023-2025 تک کے ڈیٹا پر مبنی ہوتے ہیں۔پاکستان کے معاملے میں بین الاقوامی اور مقامی رپورٹس مسلسل تشویش کے اشارے دیتی ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی Global Gender Gap رپورٹ 2025 میں پاکستان نے 148 ممالک میں نیچے ترین پوزیشن حاصل کی — ایک ایسا اشاریہ جو معاشی، سیاسی، تعلیمی اور صحت کے ستونوں میں صنفی خلا کی شدت ظاہر کرتا ہے۔

مقامی این جی اوز اور حقوقِ انسانی تنظیموں کے اعداد و شمار ایک متواتر تصویر پیش کرتے ہیں: انسانی حقوق کے ادارے ہزاروں ’غیرت کے نام‘ پر مقتول خواتین یا خواتین کے خلاف ہائی گروں کے سالانہ اندازوں کا حوالہ دیتے ہیں؛ بچوں کے خلاف جنسی زیادتی اور آن لائن ہراسگی کی شکایات میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔

قوانین موجود،عملدرآمد کمزور

پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر کئی قوانین ہیں جن کا مقصد خواتین کو تحفظ دینا ہے: کام کی جگہ پر ہراسگی کے خلاف Protection Against Harassment of Women at the Workplace Act (2010)، بچوں کے اغوا و بازیابی کے لیے Zainab Alert (ZARRA) ایکٹ، تیزاب حملوں کے خلاف Acid Control قوانین، اور صوبائی سطح پر Punjab Protection of Women Against Violence Act (2016) جیسی شقیں۔ یہ قانونی فریم ورک بنیادی طور پر مضبوط منظر نامہ فراہم کرتا ہے۔

تاہم بین الاقوامی مشاہدہ نگار اور مقامی این جی اوز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قوانین کے نفاذ میں بڑے خامیاں ہیں: پولیس کی تربیت، شواہد کی فورنسک سنبھال، متاثرین کے لیے فوری معاونت، اور خصوصاً دیہی یا قبائلی علاقوں میں ریاستی رٹ کی عدم موجودگی۔ Human Rights Watch اور UN کے تجزیوں کے مطابق، جب قانون عملی سطح پر کمزور رہتا ہے تو مجرمان اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں اور متاثرین انصاف تک رسائی کھو دیتے ہیں۔

بین الاقوامی ادارے کیا کہتے ہیں؟

اقوامِ متحدہ کی خواتین اور CEDAW جیسی تنصیبات پاکستان کو اکثر مشورے دیتی آئی ہیں: قانون سازی کے ساتھ ساتھ نفاذ، ڈیٹا شفافیت، اور متاثرین کے لیے خدمات میں اضافہ لازمی ہے۔ UN Women پاکستان کے مواد میں واضح ہے کہ ملک گیر، مربوط پالیسی اور فنڈنگ کے بغیر قوانین حقیقی تبدیلی نہیں لا سکتے۔

Human Rights Watch اور دیگر حقوقِ انسانی تنظیمیں اکثر پاکستان میں ’غیرت کے نام‘ کے واقعات، جبری شادیاں اور آن لائن ہراسگی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ریاست کو ضلعی سطح پر طاقت ور بنانا اور جغرافیائی طور پر دور دراز علاقوں میں سزا کے نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔

Digital Rights Foundation جیسی تنظیمیں آن لائن ہراسگی کی روک تھام اور ڈیجیٹل فورنسک صلاحیتوں کے قیام پر زور دیتی ہیں — ان کے ہیلپ لائن رپورٹس دکھاتی ہیں کہ آن لائن شکایات میں واضح اضافے کے باوجود پولیس اور عدالتی نظام کی ڈیجیٹل صلاحیتیں محدود ہیں۔

کیوں اعداد کم دکھتے ہیں؟

پاکستان میں متعدد ثقافتی اور معاشرتی عوامل رپورٹنگ کو متاثر کرتے ہیں: بدنامی کا خوف، معاشی انحصار، خاندانوں کی جانب سے دباؤ، اور بدصورت نتیجوں کے باعث متاثرین پولیس یا این جی اوز سے رابطہ نہیں کرتی۔ اس ’under-reporting‘ کی وجہ سے سرکاری شماریات اکثر حقیقی منظر نامے کا مکمل عکس پیش نہیں کرتیں اس خلا کو NGOs کی نگرانی اور میڈیا رپورٹس کچھ حد تک پُر کرتی ہیں

حقیقی مثالیں: میڈیا کورِیجز اور افہام و تفہیم

سال 2025 میں بلوچستان کے ایک نازک واقعے پر گرفتاری اور بڑا عوامی ردِعمل آیا — ایسے واقعات نہ صرف متاثرین کے لیے حقیقی خطرہ بتاتے ہیں بلکہ یہ بھی دکھاتے ہیں کہ جب میڈیا اور سول سوسائٹی سرِکٹھے ہوتے ہیں تو حکومت پر فوری کارروائی کے لیے دباؤ بنتا ہے۔ بین الاقوامی پوشش، جیسا کہ The Guardian نے دکھایا، ایسے معاملات میں عالمی توجہ لا کر جلد تفتیش اور گرفتاریوں میں مدد دے سکتی ہے۔

مختصر اور قابلِ عمل

قانونی نفاذ میں سرمایہ کاری: پولیس، پراسیکیوٹرز اور عدلیہ کے لیے صنفی حساس اور ڈیجیٹل فورنسک ٹریننگز۔

قومی GBV ڈیٹا پورٹل: شفاف، سالانہ، اضلاعی سطح تک ڈیٹا جو پالیسی سازی میں کام آئے۔

آن لائن فورنسک یونٹس اور ہیلپ لائنز کی شراکت: DRF جیسی ہیلپ لائنز کو ریاستی فورنسک تعاون دیا جائے۔

شہری و دیہی مداخلتیں: کمیونٹی-بنیاد مہمات، مردوں اور لڑکوں کے لیے صنفی مساوات پروگرام، اور اسکولوں میں نصابی اصلاحات

اہم نکتہ

پاکستان کے پاس کاغذ پر متعدد اہم قوانین موجود ہیں مگر بین الاقوامی اور مقامی تنظیمیں بارہا بتا چکی ہیں کہ ان قوانین کا حقیقی اثر صرف تبھی ممکن ہے جب نفاذ، شواہد کی فورنسک سنبھال، اور متاثرین کو فوری معاونت میسر ہو۔ عالمی ادارے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قانون سازی کے ساتھ ساتھ فنڈنگ، ڈیٹا شفافیت اور دیہی/قبائلی علاقوں میں ریاستی حکمرانی کو مضبوط کیا جائے۔

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos