پاکستان میں غذائی بحران 2025 تیزی سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی رپورٹوں کے مطابق بھوک، غذائی قلت اور قحط جیسے خطرات میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ SOFI 2025 کے مطابق، دنیا بھر میں بھوک کا شکار افراد کی تعداد 673 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان بھی اس بحران سے بری طرح متاثر ہے، جہاں غذائی استطاعت اور معیار دونوں تشویشناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں غذائی بحران 2025 تیزی سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی رپورٹوں کے مطابق بھوک، غذائی قلت اور قحط جیسے خطرات میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ SOFI 2025 کے مطابق، دنیا بھر میں بھوک کا شکار افراد کی تعداد 673 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان بھی اس بحران سے بری طرح متاثر ہے، جہاں غذائی استطاعت اور معیار دونوں تشویشناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔
عالمی منظرنامہ: بھوک کا بڑھتا دائرہ
SOFI 2025 رپورٹ کے مطابق 2024 میں تقریباً 673 ملین افراد بھوک کا شکار رہے۔
افریقہ اور جنوبی ایشیا میں صورتحال سب سے زیادہ خراب رہی۔
تنازعات، قرض کے بوجھ اور موسمیاتی تبدیلیوں نے لاکھوں خاندانوں کو متاثر کیا۔
دنیا کے 48 ممالک میں اب بھی 238 ملین افراد شدید غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
یہ اعداد ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر غذائی نظام ابھی تک مستحکم نہیں ہو سکا۔
پاکستان میں بڑھتی بھوک اور کمزور غذائیت
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بھوک میں سب سے تیز اضافہ ہوا ہے۔
Global Hunger Index 2024 میں پاکستان 127 ممالک میں سے 109 ویں نمبر پر ہے۔
یہ درجہ بندی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں غذائی بحران 2025 محض معاشی نہیں بلکہ ساختیاتی مسئلہ ہے۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 82% پاکستانی صحت مند خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
اسی وجہ سے ملک کے 40% بچے قد کی کمی (Stunting) کا شکار ہیں۔
غذائیت کی کمی کا انسانی اثر
غذائیت کی کمی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی نشوونما پر بھی اثر ڈالتی ہے۔
World Bank کے مطابق پاکستان میں اسٹنٹنگ کی بلند شرح ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
150 ملین سے زائد بچے دنیا بھر میں غذائی قلت کا شکار ہیں۔
پاکستان میں خواتین میں آئرن اور زنک کی کمی عام ہے، جو حمل اور بچوں کی صحت پر اثر ڈالتی ہے۔
یہ اعداد ظاہر کرتے ہیں کہ بحران صرف خوراک کی مقدار کا نہیں بلکہ معیار کا ہے
موسمیاتی تبدیلی اور زرعی تباہی
پاکستان موسمیاتی خطرات سے متاثرہ ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
شدید بارشوں، سیلابوں اور خشک سالی نے زرعی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔
IFPRI کے مطابق 2050 تک گندم کی پیداوار میں 50% تک کمی کا خدشہ ہے۔
زیادہ درجہ حرارت اور غیر یقینی بارش نے کاشتکاری کو غیر مستحکم بنا دیا ہے۔
مویشی پالنے اور ماہی گیری کے شعبے بھی سخت متاثر ہو رہے ہیں۔
پانی کا بحران: غذائی سلامتی کے لیے خطرہ
پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 2009 سے 2021 کے دوران 30% کم ہو کر 1017 مکعب میٹر رہ گئی ہے۔
زراعت ملکی پانی کا 90% استعمال کرتی ہے، مگر واٹر گورننس کمزور ہے۔
آبیانہ کی وصولی 60% سے کم ہے، جس سے نہری نظام کی دیکھ بھال متاثر ہوتی ہے۔
پانی کی گورننس 17 مختلف اداروں میں تقسیم ہے، جس سے ہم آہنگی ختم ہو چکی ہے۔
اگر مؤثر اصلاحات نہ ہوئیں تو پاکستان میں غذائی بحران 2025 مزید بگڑ سکتا ہے۔
قرض، درآمدات اور عالمی مالی دباؤ
غذائی بحران اب مالیاتی بحران سے جڑ چکا ہے۔
کئی ترقی پذیر ممالک مہنگی خوراک اور توانائی کی درآمدات کے باعث قرض میں ڈوب چکے ہیں۔
IMF نے 2023 میں Food Shock Window کے ذریعے 29 ممالک کو 40.1 بلین ڈالر امداد دی۔
مگر یہ وقتی مدد ہے، مستقل حل کے لیے جامع قرض ریلیف ضروری ہے۔
پاکستان کو بھی غذائی درآمدات کے لیے بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔
پالیسی روڈ میپ: 2025 تا 2027
حکومت نے نیشنل ویٹ پالیسی 2025/26 متعارف کرائی ہے۔
اس کا مقصد موسمیاتی مزاحمت رکھنے والی گندم کی اقسام اور جدید سائلوز کے ذریعے ذخیرہ بہتر بنانا ہے۔
پالیسی کے تحت کم آمدنی والے گروہوں کے لیے ہدف شدہ سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے۔
اسی طرح خوراک کی مضبوطی (Fortification) کے ذریعے غذائیت میں بہتری لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
WFP 2023–2027 منصوبہ بھی پاکستان میں غذائی لچک بڑھانے پر مرکوز ہے۔
یہ کمیونٹی سطح پر روزگار، باغبانی اور بچوں میں اسٹنٹنگ کی کمی کے لیے سرگرم ہے۔
ان اقدامات سے پاکستان میں غذائی بحران 2025 پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
پانی اور زراعت کی اصلاحات
پانی کے مؤثر استعمال کے بغیر کوئی غذائی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
آبیانہ کی قیمتوں میں مناسب اضافہ پانی کے درست استعمال کو فروغ دے سکتا ہے۔
ڈرپ اریگیشن جیسی ٹیکنالوجیز کے لیے سبسڈی فراہم کرنا ناگزیر ہے۔
2018 کی نیشنل واٹر پالیسی پر مکمل عمل درآمد سے پانی کی گورننس بہتر ہو سکتی ہے۔
عالمی اہداف اور پائیدار مستقبل
اقوام متحدہ کا SDG 2 ہدف 2030 تک بھوک کا خاتمہ ہے۔
اس مقصد کے لیے غذائیت، دیہی ترقی اور سماجی تحفظی پروگراموں کی ضرورت ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق غذائیت کو قومی صحت پالیسیوں میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔
پاکستان کو عالمی شراکت داری کے ساتھ پائیدار زراعت کی طرف جانا ہوگا۔
اہم نکتہ
پاکستان میں غذائی بحران 2025 محض معاشی مسئلہ نہیں، یہ قومی سلامتی کا چیلنج بن چکا ہے۔
غذائی قلت، قحط کے خدشات، اور کمزور زرعی پالیسیوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
پائیدار مستقبل کے لیے سیاسی عزم، پانی کی اصلاحات، اور موسمیاتی منصوبہ بندی ناگزیر ہیں۔
اگر بروقت اقدامات کیے گئے تو پاکستان اپنے عوام کو بھوک اور قحط سے بچا سکتا ہے۔


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *