728 x 90

خدا کی مرضی یا حکمرانی کی ناکامی؟ محنت کش طبقے کا موسمیاتی تبدیلی پر محدود فہم

خدا کی مرضی یا حکمرانی کی ناکامی؟ محنت کش طبقے کا موسمیاتی تبدیلی پر محدود فہم

یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے ۔یہ حقیقت تب عیاں ہوئی جب برطانوی ہائی کمیشن نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک مقابلے کا انعقاد کیا ۔ اس مقابلے میں پاکستان کے بڑے میڈیا گروپس میں کام کرنے والوں صحافیوں نے حصہ لیا

خدا کی مرضی یا حکمرانی کی ناکامی؟ محنت کش طبقے کا موسمیاتی تبدیلی پر محدود فہم ۔ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے ۔یہ حقیقت تب عیاں ہوئی جب برطانوی ہائی کمیشن نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک مقابلے کا انعقاد کیا ۔ اس مقابلے میں پاکستان کے بڑے میڈیا گروپس میں کام کرنے والوں صحافیوں نے حصہ لیا۔سماء ڈیجیٹل کے رپورٹر واجد علی نے برطانوی ہائی کمیشن کے موسمیاتی مقابلے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ سے نمایاں کامیابی حاصل کی۔

واجد علی کی تحقیقاتی کامیابی
واجد علی جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ گزشتہ تین برس سے سماء ڈیجیٹل کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے مقابلے کے لیے ایک تحقیقاتی سٹوری تیار کی جس کا عنوان عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنا۔
سٹوری کا عنوان تھا: پاکستان کے محنت کش لوگ ماحولیاتی تبدیلی کو خدا کی مرضی کیوں سمجھتے ہیں؟

محنت کش اور موسمیاتی خطرات

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گلیوں اور سڑکوں پر کام کرنے والے مزدور شدید گرمی اور سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
زیادہ تر محنت کش اس صورتحال کو ماحولیاتی تبدیلی نہیں بلکہ اللہ کی مرضی سمجھتے ہیں۔
واجد علی نے چار مختلف مزدوروں کے انٹرویوز کیے جو ایک ہی مسئلے کی نشاندہی کرتے تھے۔
تمام مزدور موسمیاتی تبدیلی کے سائنسی پس منظر سے تقریباً لاعلم تھے۔

غیر رسمی معیشت اور معاشی حقیقت

پاکستان کی غیر رسمی معیشت مزدور قوت کے تین چوتھائی افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔
یہ تعداد تقریباً پانچ کروڑ پچاس لاکھ سے ستاون لاکھ کے درمیان ہے۔
اس طبقے کے پاس نہ معاہدے ہیں، نہ انشورنس، اور نہ سماجی تحفظ موجود ہے۔
PIDE اور ILO کے مطابق غیر رسمی معیشت ملک کی مجموعی جی ڈی پی کا 35 سے 40 فیصد حصہ فراہم کرتی ہے۔
یہ حصہ تقریباً 380 ارب ڈالر کے برابر ہے، جو ایک بڑی معاشی حقیقت ظاہر کرتا ہے۔اس رپورٹ پر واجد علی کو ایوراڈ دیا گیا ۔

موسمیاتی تبدیلی خدا کی مرضی ہے یا پالیسی کی ناکامی عالمی رپورٹس اس پر کیا کہتیں ہیں

موسمیاتی پالیسیاں

پاکستان نے حالیہ برسوں میں کئی اہم موسمیاتی پالیسیاں متعارف کرائیں تاکہ مستقبل کے خطرات کم ہوں۔
ان میں 2012 اور 2021 کی نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی اور 2024 کی نئی کلائمٹ فنانس اسٹریٹیجی شامل ہیں۔
یہ پالیسیاں مضبوط ہیں، مگر عالمی و قومی رپورٹس بتاتی ہیں کہ فنڈز عملی طور پر نچلی سطح تک نہیں جاتے۔

عالمی رپورٹس

دنیا بھر کی تحقیق بتاتی ہے کہ عالمی کلائمٹ فنڈنگ مقامی کمیونٹیز تک بہت محدود مقدار میں پہنچتی ہے۔
IIED کے مطابق عالمی فنڈنگ کے صرف 29 فیصد منصوبے مقامی سطح کا ذکر کرتے ہیں۔
کمیونٹی لیڈ منصوبوں کا حصہ صرف 0.17 فیصد رہا۔
ڈونر ادارے زیادہ تر بڑے پراجیکٹس کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ مقامی منصوبے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق زیادہ تر فنڈنگ قرض کی شکل میں دی جاتی ہے، جو کمزور ممالک پر بھاری مالی بوجھ بن جاتی ہے۔

فنڈز کے قومی استعمال میں رکاوٹیں

پاکستان میں فنڈز نچلی سطح تک نہ پہنچنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی انتظامی کمزوری ہے۔
ڈان کی 2025 رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر سال دو ارب ڈالر کے قریب فنڈز استعمال نہیں کر پاتا۔
پیچیدہ منظوری، کمزور ضلعی کارکردگی اور شفافیت کی کمی اس ناکامی کی بنیادی وجوہات ہیں۔
کلائمٹ فنانس اسٹریٹیجی بھی اعتراف کرتی ہے کہ فنڈنگ کا نظام حد سے زیادہ مرکزی ہے۔
اس صورتحال میں مقامی حکومتیں اور متاثرہ کمیونٹیز براہِ راست وسائل تک رسائی حاصل نہیں کر پاتیں۔
UNFCCC بھی بتاتا ہے کہ مقامی لوگوں کی شمولیت قومی فیصلوں میں بہت کم ہوتی ہے۔

غیر رسمی محنت کشوں کے مسائل

ILO کے مطابق پاکستان کی 58 فیصد سے زیادہ ورک فورس غیر رسمی معیشت کا حصہ ہے۔
یہ طبقہ سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات، جیسے ہیٹ سٹریس اور سموگ کا شکار بنتا ہے۔
مگر اس طبقے کے لیے مؤثر حفاظتی نظام یا کلائمٹ رسک فنانس تقریباً موجود نہیں ہے۔
مقامی سطح کے منصوبے اس طبقے تک نہیں پہنچتے۔

عالمی سفارشات

عالمی ادارے تجویز کرتے ہیں کہ فنڈز براہ راست کمیونٹیز کو منتقل ہونا چاہئیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے بھی فنڈز کے غلط استعمال کو بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔
UN Pakistan تجویز کرتا ہے کہ قرض کے بجائے گرانٹ بنیاد پر فنڈنگ بڑھائی جائے۔
UNFCCC مقامی اداروں کی تربیت اور صلاحیت بڑھانے کو بھی ناگزیر قرار دیتا ہے۔

اہم نکتہ

واجدعلی کی رپورٹ میں جو حقائق بیان کئے گئے ہیں ان کو اگر عالمی رپورٹس کے تناظر میں دیکھا جائے یہ حقائق کے قریب معلوم ہوتے ہیں ۔

جب تک فنڈز مقامی لوگوں تک نہیں پہنچیں گے، تبدیلی ممکن نہیں

عالمی وعدوں، اربوں ڈالر کی فنڈنگ، اور مضبوط پالیسیوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ:
فنڈز کا بڑا حصہ مقامی کمیونٹیز تک پہنچنے سے پہلے روک جاتا ہے۔

پاکستان میں موسمیاتی انصاف اُس وقت ممکن ہوگا جب:

  • حکومت فنڈ کے بہاؤ میں شفافیت لائے
  • ڈونر ادارے community-led adaptation کو ترجیح دیں
  • اور مقامی لوگوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے

کیونکہ موسمیاتی بحران کا پہلا وار ہمیشہ کمزور انسان پر پڑتا ہے
اور جب تک فنڈز اُس تک نہیں پہنچیں گے، نہ موافقت ممکن ہے نہ انصاف۔

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos