728 x 90

پاکستان میں غربت کا بحران: سیلاب، افراط زر اور نظامی کمزوریوں کے اثرات

پاکستان میں غربت کا بحران: سیلاب، افراط زر اور نظامی کمزوریوں کے اثرات

پاکستان میں غربت کا بحران حالیہ سالوں میں اقتصادی اور موسمیاتی جھٹکوں سے متاثر ہوا۔
اس کے علاوہ، بین الاقوامی غربت کی لکیر $2.15 سے $3.00 یومیہ (2021 PPP) ہو گئی۔
ورلڈ بینک کے مطابق دنیا میں 808 ملین افراد شدید غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستان میں غربت کی شرح 2018-19 میں 21.9% تھی، جو 2020 کے بعد بڑھ گئی۔

پاکستان میں غربت کا بحران حالیہ سالوں میں اقتصادی اور موسمیاتی جھٹکوں سے متاثر ہوا۔
اس کے علاوہ، بین الاقوامی غربت کی لکیر $2.15 سے $3.00 یومیہ (2021 PPP) ہو گئی۔
ورلڈ بینک کے مطابق دنیا میں 808 ملین افراد شدید غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستان میں غربت کی شرح 2018-19 میں 21.9% تھی، جو 2020 کے بعد بڑھ گئی۔
تاہم، کووِڈ-19، شدید افراط زر، اور میکرو اکنامک دباؤ غربت میں اضافے کے اہم محرکات ہیں۔
2022 کے سیلاب نے 9.1 سے 13 ملین افراد کو غربت کی لپیٹ میں ڈالا۔
مزید برآں، 2025 کے مون سون سیلاب نے تقریباً 7 ملین افراد کو متاثر کیا اور 1,000 سے زیادہ اموات ہوئیں۔
زرعی پیداوار اور گھرانوں کے بفر اثاثے شدید نقصان سے متاثر ہوئے۔
نتیجتاً، عارضی جھٹکے مستقل غربت میں بدل گئے۔
غربت کے بنیادی اسباب میں ناقص حکمرانی، پانی کے ناکام انتظام، اور انسانی سرمائے کا بحران شامل ہیں۔
غریبوں کی مدد کے لیے BISP کی وسعت اور انسانی سرمائے میں ہنگامی سرمایہ کاری ضروری ہے۔

اقوام متحدہ کا تھیم غربت کو نظامی ناکامی کے طور پر دیکھتا ہے۔
تاہم، فرد کی ذاتی کمی پر زور نہیں دیا گیا۔
اس کے علاوہ، سروس ڈیزائن کو کنٹرول سے دیکھ بھال کی طرف منتقل کرنا ضروری ہے۔
مزید برآں، سرمایہ کاری کو خاندانی معاونت پر مرکوز کرنا، آمدنی اور معیاری دیکھ بھال کے لیے اہم ہے۔

پاکستان میں غربت 2001-02 میں 64.3 فیصد تھی۔
تاہم، یہ شرح 2018-19 میں 21.9 فیصد تک کم ہو گئی۔
غیر زرعی روزگار میں اضافہ غربت کی کمی کا بنیادی سبب تھا۔
تاہم، پائیدار نمو نہ ہونے کی وجہ سے غربت دوبارہ بڑھ گئی۔
مزید برآں، کووِڈ-19، شدید افراط زر، اور میکرو اکنامک دباؤ نے معاشی استحکام کو نقصان پہنچایا۔

2022 کے مون سون سیلاب نے 33 ملین افراد کو متاثر کیا۔
نتیجتاً غربت کی کمی کی پیش رفت کو نقصان پہنچا۔
سیلاب کے نتیجے میں 9.1 سے 13 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔
غریب ترین طبقے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئے۔
مزید برآں، ایک تہائی گھرانوں نے براہ راست نقصانات کی اطلاع دی۔

2025 کے مون سون سیلاب نے تقریباً 7 ملین افراد کو متاثر کیا۔
اس کے علاوہ، 1,000 سے زیادہ اموات بھی رپورٹ ہوئیں۔
مویشیوں کا نقصان چھوٹے کسانوں کے لیے بفر اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔
نتیجتاً، غربت میں فوری اضافہ ہوا۔
IMF کی رپورٹس کے مطابق، GDP کی شرح نمو 3¼ سے 3½ فیصد تک کم ہونے کی پیش گوئی ہے۔
صحت عامہ کے خطرات اور پناہ گاہوں میں بیماری غربت کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔

پاکستان کا معاشی ماڈل طویل عرصے سے کھپت پر مبنی رہا۔
تاہم، 2020 کے بعد اس کی حدود واضح ہو گئی ہیں۔
نجی سرمایہ کاری کا جمود اور بڑھتے عوامی قرضے ریاست کی بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری محدود کرتے ہیں۔
بلند افراط زر اور غیر ملکی زر مبادلہ کی عدم استحکامی غربت میں براہ راست اضافہ کرتی ہیں۔غربت صرف معاشی محرومی نہیں بلکہ نظامی ناکامی ہے۔
تاہم، پاکستان میں یہ ناکامی ناقص حکمرانی کی وجہ سے ہے۔
بدعنوانی آمدنی میں عدم مساوات اور غربت میں اضافہ کرتی ہے۔
نتیجتاً سیاسی عدم استحکام معاشی نمو محدود کرتا ہے۔
نجکاری اور یوٹیلیٹی قیمتوں میں اضافہ حکومتی معیار میں کمی کا سبب بنا۔
مزید برآں، کمزور طبقات غربت کی لکیر سے نیچے گئے۔ملک میں 85 فیصد سے زیادہ ملازمتیں غیر رسمی شعبے میں ہیں۔
یہ صورتحال آمدنی اور مواقع محدود کرتی ہے۔
تقریباً 40 فیصد بچے نشوونما میں پیچھے ہیں۔
پرائمری اسکول کی عمر کے ایک چوتھائی بچے اسکول سے باہر ہیں۔
صحت اور تعلیم میں کمی غربت کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔

پاکستان پانی کی قلت کے خطرے سے دوچار ہے۔
زرعی شعبہ 90 فیصد دستیاب آبی وسائل استعمال کرتا ہے۔
آبپاشی چارجز پانی کی حقیقی اقتصادی قیمت ظاہر نہیں کرتے۔
پانی کی گورننس 17 ایجنسیوں میں تقسیم ہے۔
مزید برآں، قومی آبی پالیسی کا 60 فیصد بین الصوبائی تنازعات کی وجہ سے غیر نافذ ہے۔

غربت میں کمی کے لیے “لوگوں پر مرکوز” چار اہم راستے ضروری ہیں۔
BISP کے سماجی تحفظ کے جال کو وسیع کرنا فوری مدد ممکن بناتا ہے۔
غیر مؤثر سبسڈیوں کو ختم کرکے بچت کو غربت زدہ افراد پر ہدف بنایا جائے۔
انسانی سرمائے میں ہنگامی سرمایہ کاری صحت، تعلیم، پانی اور صفائی کے لیے ضروری ہے۔
صحیح اور بروقت ڈیٹا سسٹمز HIES 2024-25 کے اجرا سے فیصلے بہتر ہوں گے۔

آبپاشی چارجز کی قیمتوں میں اضافہ پانی کی حقیقی اقتصادی قیمت ظاہر کرے گا۔
17 ایجنسیوں میں ہم آہنگی پیدا کرکے پانی کے انتظام کو بہتر بنایا جائے گا۔
زرعی لچک کے لیے موسمیاتی خطرات سے محفوظ گندم کی اقسام اور جدید ذخیرہ اندوزی ضروری ہے۔

اہم نکتہ

پاکستان میں غربت کے بحران پر قابو پانے کا واحد راستہ نظامی لچک کی تعمیر ہے۔
حکومت کو BISP جیسے سماجی تحفظ کے جال کو مضبوط کرنا چاہیے۔
مزید برآں، پانی و انسانی سرمائے میں اصلاحات پر عمل ضروری ہے۔
اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے، تو ہر نیا سیلاب یا اقتصادی جھٹکا غربت کی کمی کی محنت ختم کر دے گا۔
یہ اصلاحات نہ ہونے سے 2030 کے عالمی ترقیاتی اہداف کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos