728 x 90

پاکستان میں جنگلات کا بحران: کب تک نظرانداز ہوگا یہ ماحولیاتی المیہ؟

پاکستان میں جنگلات کا بحران: کب تک نظرانداز ہوگا یہ ماحولیاتی المیہ؟
پاکستان میں جنگلات کا بحران مسلسل بڑھ رہا ہے۔ قدرتی جنگلات کی کمی سیلاب، خشک سالی اور غذائی تحفظ پر براہِ راست اثر ڈال رہی ہے۔ یہ ماحولیاتی المیہ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ قومی سلامتی اور دیہی معیشت کے لیے بھی خطرہ ہے۔ فوری اقدامات، جدید قانون سازی اور کمیونٹی کی شمولیت ناگزیر ہیں

پاکستان میں جنگلات کا بحران ایک اہم مسئلہ ہے ۔پاکستان کو عالمی سطح پر جنگلات کے لحاظ سے ایک کمزور ملک سمجھا جاتا ہے۔ ملک کے کل رقبے کا صرف پانچ فیصد سے تھوڑا زیادہ حصہ جنگلات پر مشتمل ہے، جو ایشیا میں سب سے کم شرحوں میں سے ایک ہے۔ اس محدود جنگلاتی کوریج کے باوجود، آبادی میں اضافہ اور توانائی کی ضروریات کی وجہ سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

پاکستان میں جنگلات کا بحران ایک اہم مسئلہ ہے ۔پاکستان کو عالمی سطح پر جنگلات کے لحاظ سے ایک کمزور ملک سمجھا جاتا ہے۔ ملک کے کل رقبے کا صرف پانچ فیصد سے تھوڑا زیادہ حصہ جنگلات پر مشتمل ہے، جو ایشیا میں سب سے کم شرحوں میں سے ایک ہے۔ اس محدود جنگلاتی کوریج کے باوجود، آبادی میں اضافہ اور توانائی کی ضروریات کی وجہ سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

جنگلات کی کمی نہ صرف ماحولیاتی بلکہ اقتصادی اور سماجی مسائل پیدا کر رہی ہے۔ قدرتی ماحولیاتی نظام کی کمی ملک کو موسمیاتی آفات کے لیے بھی غیر محفوظ بنا رہی ہے۔

پاکستان میں جنگلات کی موجودہ صورتحال

پاکستان کے جنگلات شمالی پہاڑی سلسلوں، میدانی علاقوں اور ساحلی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ تقریباً 40 فیصد شمالی پہاڑی علاقوں میں مخروطی اور جھاڑی دار جنگلات ہیں۔ باقی ماندہ جنگلات دریائی، مینگروو، اور کاشت شدہ درختوں پر مشتمل ہیں۔

فی کس جنگلاتی رقبہ پاکستان میں صرف 0.05 ہیکٹر ہے جبکہ عالمی اوسط ایک ہیکٹر کے قریب ہے۔ آبادی میں سالانہ 2.61 فیصد اضافہ اس دباؤ کو مزید بڑھاتا ہے۔پاکستان میں جنگلات کا بحران کا بڑھتا ہوا بحران مستقبل کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے۔

گزشتہ دہائیوں میں جنگلات کا نقصان

1973 سے 2015 کے درمیان خشک معتدل علاقوں میں جنگلات میں تقریباً 21,034 ہیکٹر کی کمی ہوئی، یعنی سالانہ 0.56 فیصد۔

1993 سے 2015 کے دوران یہ شرح بڑھ کر 0.82 فیصد ہو گئی، جس کی بڑی وجہ ادارہ جاتی کمزوریاں اور ٹمبر مافیا کی سرگرمیاں ہیں۔ جنوبی پنجاب میں 2000 سے 2021 کے درمیان جنگلاتی کوریج میں مجموعی طور پر 31 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

جنگلات کی کمی کے محرکات

سماجی و اقتصادی عوامل

پاکستان میں زیادہ تر دیہی آبادی ایندھن اور روزگار کے لیے جنگلات پر منحصر ہے۔ ملک کی 68 فیصد آبادی گھریلو توانائی کے لیے لکڑی استعمال کرتی ہے۔

غربت اور ٹمبر مافیا کا تعلق بھی جنگلاتی نقصان کا ایک اہم سبب ہے۔ مقامی لوگ غربت کی وجہ سے غیر قانونی لکڑی فروخت کرنے پر مجبور ہیں، جس سے ماحولیاتی نقصان بڑھتا ہے۔

مویشیوں کی چرائی

ملک میں تقریباً 86 ملین مویشی ہیں۔ بے قابو چرائی اور جنگلاتی زمین پر قدموں سے کچلنے سے نئے درخت اگنے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

ترقیاتی دباؤ

شہری پھیلاؤ اور انفراسٹرکچر کی توسیع جنگلات کی زمین کو غیر جنگلاتی مقاصد کے لیے بدل رہی ہے۔ 2000 سے 2021 کے دوران جنوبی پنجاب میں جنگلاتی رقبے میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔

ادارہ جاتی کمزوریاں

محکمہ جنگلات کے پاس محدود بجٹ اور کمزور انتظامی ڈھانچہ ہے۔ بدعنوانی اور ٹمبر مافیا کے گٹھ جوڑ نے قوانین کے مؤثر نفاذ کو مشکل بنا دیا ہے۔

قانونی اور پالیسی فریم ورک

The Forest Act, 1927

یہ قدیم قانون جنگلات، لکڑی کی ترسیل اور سرکاری ملکیت کو کنٹرول کرتا ہے۔ محفوظ جنگلات اور دیہی جنگلات کے لیے دفعات موجود ہیں، مگر کمیونٹی کی شمولیت کم ہے۔

نیشنل فارسٹ پالیسی، 2017

یہ پالیسی جنگلات کو وسعت دینے، ماحولیاتی افعال کو بحال کرنے اور پائیدار استعمال کو فروغ دینے کے لیے بنائی گئی۔ تاہم، وفاقی اور صوبائی سطح پر عمل درآمد میں تضاد ہے۔

قانون کے نفاذ میں چیلنجز

عدالتی احکامات کے باوجود، قوانین پر عمل درآمد ناکافی رہا ہے۔ مالی بدعنوانی اور سیاسی دباؤ نے مقامی کمیونٹیز کی شمولیت کو محدود کیا ہے۔

عالمی اور مقامی رپورٹس

FAO اور عالمی بینک کے مطابق پاکستان کے جنگلاتی شعبے میں 500,000 سے زائد لوگ روزگار حاصل کرتے ہیں۔
بلین ٹری سونامی (BTTAP) اور گرین پاکستان پروگرام کے تحت 2015 سے 2023 کے دوران جنگلات میں اضافہ ہوا، مگر قدرتی جنگلات کا تنزل جاری ہے۔

شجرکاری بمقابلہ قدرتی جنگلات

مصنوعی شجرکاری سے تو کوریج میں اضافہ نظر آتا ہے، مگر یہ سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور واٹرشیڈ کی حفاظت جیسی خدمات فراہم نہیں کر سکتی۔

پاکستان پر اثرات

ماحولیاتی اور موسمیاتی اثرات

جنگلات کی کمی سیلاب کی شدت بڑھا رہی ہے۔ شمالی پہاڑی سلسلوں میں جنگلات کے نقصان سے لینڈ سلائیڈنگ اور موسمی آفات کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

اقتصادی اور سماجی اثرات

جنگلات کی کمی دیہی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ غیر قانونی لکڑی کی تجارت ملکی محصولات میں کمی اور غربت میں اضافہ کر رہی ہے۔ زراعت اور غذائی تحفظ بھی متاثر ہو رہا ہے۔

صحت اور رہائش

جنگلات کی کمی ماحولیاتی توازن خراب کر کے بیماریوں کے پھیلاؤ اور ہوا کے معیار میں کمی کا سبب بنتی ہے۔

سفارشات اور آئندہ حکمت عملی

قانونی اور ادارہ جاتی اصلاحات

The Forest Act, 1927 کو جدید ماحولیات پر مبنی قانون سے تبدیل کیا جائے۔ کمیونٹیز کو شراکت اور مالکانہ حقوق دیے جائیں۔

معاشی مراعات

Payment for Ecosystem Services (PES) جیسے ماڈلز نافذ کیے جائیں۔ مقامی رائلٹی بڑھائی جائے اور متبادل ذرائع روزگار فراہم کیے جائیں۔

عالمی اہداف اور سرمایہ کاری

گرین پاکستان پروگرام اور بلین ٹری سونامی کی نگرانی شفاف بنائی جائے۔ عالمی بینک اور دیگر اداروں کے ساتھ طویل المدتی مالی منصوبہ بندی کی جائے۔

اہم نکتہ

پاکستان میں جنگلات کا بحران ایک تاریخی اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ٹمبر مافیا، ادارہ جاتی کمزوریاں اور غیر قانونی تجارت قدرتی جنگلات کی کمی کے بڑے سبب ہیں۔
شجرکاری کے منصوبے محدود کامیابی دیتے ہیں، مگر قدرتی ماحولیاتی نظام کا تنزل جاری ہے۔

جنگلات کی کمی نہ صرف ماحولیاتی بلکہ اقتصادی، سماجی اور قومی سلامتی کے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ فوری اقدامات، جدید قانون سازی، مقامی کمیونٹیز کی شمولیت اور طویل المدتی سرمایہ کاری کے بغیر یہ بحران بڑھتا رہے گا۔

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos