7اکتوبر 2023ء سے امریکی اور بعض مغربی ممالک کی آشیر باد سے اسرائیل نے فلسطینی شہروں غزہ اور دیگر پر بمباری کرنے کا سلسہ شروع کر رکھا ہے اور فلسطینیوں کا بڑی بے دردی کیساتھ خون بہا یا جا رہا ہے اسرائیل پوری عسکری قوت کیساتھ حماس کو کچلنے اور مکمل طور پر ختم
7اکتوبر 2023ء سے امریکی اور بعض مغربی ممالک کی آشیر باد سے اسرائیل نے فلسطینی شہروں غزہ اور دیگر پر بمباری کرنے کا سلسہ شروع کر رکھا ہے اور فلسطینیوں کا بڑی بے دردی کیساتھ خون بہا یا جا رہا ہے اسرائیل پوری عسکری قوت کیساتھ حماس کو کچلنے اور مکمل طور پر ختم کر نیکا ارادہ کرکے فلسطینی شہروں ہسپتالوں سکولوں اور شہری آبادیوں کو نشانہ بناچکا ہے۔فلسطین میں غزہ اور دیگر شہروں میں خون ریزی جاری ہے ایک سال میں تقریباً پچاس ہزار فلسطینی جن میں زیادہ ترعورتیں اور بچے شامل ہیں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید اور ایک لاکھ کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہیں اور دو ملین سے زائدافراد کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا جو اپنے گھروں سے دربدر کھلے آسمان کی چھتری تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر یو این او کی سلامتی کونسل اس وسیع پیمانے کی خونریزی کو امریکہ طرف سے ویٹو پاور کے استعمال کی وجہ سے روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔آئے روز سینکڑوں نہتے فلسطینی شہری اسرائیلی فورسز کی ظالمانہ کاروائیووں کے نتیجے مارے جا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کوئی موئثر کاروائی کرنے کی بجائے بیان بازی اور زبانی جمع خرچ کرنے میں مصروف شاید آخری فلسطینی بچے کی موت واقع ہونے کی منتظر ہے۔ موجودہ حالات کو بہتر بنانے اور قیام امن کیلئے اب تک جتنی قراردیدیں پیش کی گئی ہیں امریکہ نے سب کو ویٹو کرکے ناکام بنا دیا ہے۔،،انجمن اقوام متحدہ،،اور مسلم ممالک کی تنظیم،،او آئی سی،، کی عدم دلچسپی، چشم پوشی اور دانستہ غفلت کے باعث اس سلگتے ہوئے اس مسئلے پر خطے میں کسی نئی عالمی جنگ کا آغاز ہو جائے۔ اور ساری دنیاکا امن تباہ وبرباد ہو جائے گا۔۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی،،UNRWA ،،نے کہا۔اسرائیلی سنائپر نے مغربی کنارے میں اقوام متحدہ کے کارکن کو سفیان جابر عابد جواد کو شمالی مغربی کنارے کے فارع کیمپ میں گھرکی چھت سے گولی چلا کر ہلاک کر دیا ہے اور یہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں فلسطینی سرزمین پر مارا جانے والا یہ پہلا ملازم ہے۔مقبوضہ علاقے میں یو این آر ڈبلیو اے کے ڈائریکٹر رولینڈ فریڈرک نے کہا ہے کہ اس نے شمالی مغربی کنارے میں کئی ہفتوں سے طویل اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔”شہری انفراسٹرکچر بشمول پانی اور بجلی کے نیٹ ورکس کو تباہ کر دیا گیا ہے اور کمیونٹیز کی بنیادی سپلائیز تک غیر یقینی رسائی ہے۔ UNRWA کو خدمات معطل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ جواد کی موت غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام پناہ گاہ پر اسرائیلی حملے میں مارے گئے UNRWA کے چھ دیگر عملے کے علاوہ ہے۔ یہ ایجنسی کے لیے سب سے زیادہ مرنے والوں کی تعداد تھی۔فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ اس کی ٹیمیں غزہ کے 11,000 خاندانوں کو خوراک پہنچانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔خصوصاً شمالی حصہ جہاں خوراک کی انتہائی قلت ہے۔اسرائیلی فورسز نے اہم سرحدی گزرگاہوں کو سیل کرنا جاری رکھا ہوا ہے، جس سے انسانی امداد اور انتہائی ضروری ایندھن کے داخلے کو روکا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے طاقتور اتحادیوں کو ایگی اور فلسطینی عوام کے لیے انصاف کے حصول کے لیے اقدام کرنا ہوں گے جو اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں بے گناہ قتل کیے جا رہے ہیں۔۔”دنیا کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ امریکی انتظامیہ اور مغربی طاقتوں کو اسرائیل کو جوابدہ ہونا چاہیے۔اسرائیلی فوج وسطی غزہ میں آپریشن کو وسعت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔۔طارق ابو عزوم نے دیر البلاح، غزہ سے رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا ہے۔کہ آج صبح سے ہی فلسطینیوں کا قتل عام نہیں رکا۔غزہ کی پٹی کے شمال میں وسیع پیمانے پر بمباری کی گئی ہے، جہاں فوج بغیر کسی وارننگ کے رہائشی چوکوں کو تباہ کر رہی ہے، خاص طور پر غزہ شہر کے زیتون محلے۔۔فوج ان تمام علاقوں میں اپنے آپریشن کو وسعت دینے کی کوشش کر رہی ہے جو نیٹزارم کوریڈور سے ملحق ہیں۔ غزہ کے وسطی علاقوں میں نصیرات پناہ گزین کیمپ وہ علاقہ رہا ہے جس پر اسرائیلی فوج نے شدید گولہ باری کی ہے۔۔لیکن رفح میں لڑائی اب بھی جاری ہے۔ رفح کو زیادہ تر اسرائیلی لڑاکا طیاروں اور توپ خانے کے یونٹوں نے تباہ کر دیا ہے۔یہ ناقابل رہائش ہے۔ فوج اس کے تمام مرکزی مرکزی چوکوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور پانی کے کنووٗں، تعلیمی سہولیات، یونیورسٹیوں اور انخلا کی تمام پناہ گاہوں کو تباہ کر رہی ہے جنہیں فلسطینی حملہ سے پہلے استعمال کر رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے کارکن کے قتل نے امریکی حکومت کے دوہرے معیار کو ظاہر کر دیا ہے۔ہم امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے بہت عادی ہیں جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے ساتھ مساوی انسان نہیں ہیں۔ یو این او کے کارکن ایگی کی اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت پرامریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے آزادانہ تحقیقات پر زور دینے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے کچھ منتخب صحافیوں کو جنوبی غزہ کے جنگ زدہ شہر رفح کے ایک علاقے کا دورہ کرایا۔ جبکہ اس اسکورٹ ٹور کے نامہ نگار ان مخصوص علاقوں کے علاوہ شہر کے دوسرے حصوں کا دورہ کرنے سے قاصر تھے۔ اسرائیل نے بین الاقوامی صحافیوں کو آزادانہ طور پر غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔رفح کا ضلع تال السلطان اسرائیل کے حملے کے مہینوں بعد تباہی کا منظر تھا۔ ملبے کے بڑے بڑے ڈھیر جو کبھی فلسطینی باشندوں کے گھر ہوتے تھے سڑکوں پر قطاریں لگ گئیں۔ اپارٹمنٹ کی عمارتوں کے چند بکھرے ہوئے کنکریٹ کے ڈھانچے اب بھی کھڑے تھے۔ایک بار جب اسرائیل کے نامزد کردہ “محفوظ” زون کے بعد، فوجی مئی میں رفح میں چلے گئے اور تقریبا 1.4 ملین فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا – جن میں رفح کے رہائشی اور غزہ کے دوسرے حصوں سے پناہ لینے والے لاکھوں افراد بھی شامل ہیں جو اب جنوبی اور وسطی غزہ کے ارد گرد منتشر ہیں۔جنوبی غزہ کے خان یونس میں بے گھر لوگوں کو پناہ دینے والے خیمے پر اسرائیلی حملے میں متعدد فلسطینی ہلاک اور دیگر زخمی ہو گئے۔وفا نیوز ایجنسی نے غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملہ العطار کے علاقے میں ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ پر تباہ کن جنگ ختم کرنے کے لیے امریکا کواسرائیل پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔۔ انتونیو گوتریس نے الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غزہ جیسے بڑے تنازعات کو حل کرنے میں ناکامی پر بھی تنقید کی۔ انھوں نے عالمی طاقتوں کو قوموں اور تحریکوں کو استثنی کے ساتھ کام کرنے کے قابل بنانے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انتونیو گوتریس نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس فیصلے کا بھی حوالہ دیا کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضہ غیر قا نونی ہے اور ان علاقوں کو آزاد فلسطینی ریاست کے حصے کے ساتھ ختم ہونا چا ہئے۔۔ قطر یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر حسن براری کا کہنا ہے امریکہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے قابل بنا رہا ہے۔ غزہ پر اسرائیل کے حملے کو روکنے کی بات آنے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کسی بھی چیز پر اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکامی اسے “غیر فعال، مفلوج” قرار دے رہی ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ گوتیرس کی طرف سے جنہوں نے الجزیرہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ امریکہ کو اسرائیل پر اپنی جنگ ختم کرنے کے لیے دبا ڈالنا چاہیے – براری نے کہا کہ، گوتریس، امریکہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے کیونکہ امریکہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے قابل بنا رہا ہے۔۔حزب اللہ نے اسرائیل کی خونریز جنگ کے دوران غزہ میں فلسطینیوں کی حمایت کرنے کے وعدے کے ساتھ اکتوبر2023 ء سے جوابی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح مشرق وسطی میں وسیع تر تنازعے کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔اسرائیل اور لبنان کے درمیان آخری بار2006 ء میں مکمل جنگ ہوئی تھی۔ اسرائیل نے لبنان کودھمکی دی ہے کہ اگر حزب اللہ کے ساتھ نئی جنگ چھڑ گئی تو اس کے نتیجے میں لبنان “پتھر کے دور” میں واپس آجائے گا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد 28جون 1919ء میں جب لیگ آف نیشنز کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اس وقت روس کے کیمونسٹ رہنما لینن نے اپنے تاریخی جملے میں لیگ آف نیشنز کو ”چوروں کا باورچی خانہ“ کہا تھا ان کے الفاظ وقت کے ساتھ صحیح ثابت ہوئے امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کو ایک ایسے اسٹیج کی ضرورت تھی جس میں وہ اپنی مرضی کے ڈرامے سجا کرکمزورممالک کو مزید بے دست و پا کرکے اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں لیگ آف نیشنز کی ناکا می اور دنیا میں وسیع پیمانے پر تباہی اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد فروری 1945ء کو سان فرانسسکو میں انجمن اقوام متحدہ ’یو این او‘ کا قیام عمل میں لایا گیابظاہر اس کا مقصد دنیا میں قیام امن کی ضمانت کی فراہمی تھی مگر اس کے در پردہ سامراجی بڑی طاقتوں کی اجارہ داری قائم کرنامقصود تھا اس ا دارے کی تشکیل کے ساتھ ہی پانچ بڑی طاقتوں کو ویٹو پاور کا اختیار دے کر ناانصا فی کا آغاز کر دیا گیا گویا کہ یہ دنیا میں غریب اور مفلوک الحال قوموں اورغریب ممالک کے وسائل پر قبضے جمانے کی ابتدا تھی عالمی لٹیرے اس ادارے میں بیٹھ کر دنیا کے وسائل پر قبضہ جمانے کی سا زشیں کرتے رہے اور اپنے اپنے مفادات کی نگرانی کر نے لگے رفتہ رفتہ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کی اصل غرض وغایت ختم ہو گئی بڑی طاقتوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرکے اسے اپنی باندی بنا لیا اور من مر ضی کے فیصلے صادر کرنے شروع کر دیے نتیجے میں دنیا کا امن و امان تہ و بالا ہو گیا اس ادارے کے نام پربڑی بے دردی کے ساتھ کمزور ممالک کے لاکھوں بے گناہ افراد قتل کئے جارہے ہیں اور ان کے وسائل کی بندر بانٹ کی جا رہی ہے احتجاج کرنے و الے ممالک کے خلاف عالمی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا بہانہ تراش کر انھیں نشان عبرت بنا یا جا رہا ہے مگر بڑی طاقتیں اور ان کے بغل بچے ہمیشہ سے محفوظ چلے آرہے ہیں مسئلہ کشمیر اور فلسطین جو کہ در اصل برطانیہ اور امریکہ ہی کے پیدا کردہ ہیں چونکہ ان کا تعلق اسلامی ممالک کیساتھ ہے اس لئے یہ برسوں سے حل طلب ہیں اور یو این بھی اس پر خاموش تماشائی کا کردار نباہتے ہوئے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر گامزن ہے۔پاکستان کے علاقے کشمیرپر ابھی تک تقریباً 80 ہزار مربع میل علاقہ گزشتہ سات عشروں سے بھارت کے ناجائز قبضہ میں ہے۔ اس عالمی تنازعے پریو این او کی منظور شدہ قراردادیں سیکرٹری یو این اوکی میز پر ردی کی ٹوکری کی طرح پڑی کسی بڑے تصادم کی منتظر ہیں۔۔۔۔
امریکی پالیسی سازوں نے اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر عالمی سطح پر ہمیشہ اس کی جائز ناجائز حمایت کرنے اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کو ناکام بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے صرف یو این او میں پیش کردہ قرارداوں کو کا حشر نشر جو امریکی سامراج نے کیا ا سے دیکھ کر شاید شیطان کی روح بھی شرما جائے۔ اسرائیل کے حق میں امریکی ویٹو پاور کے استعمال کی تاریخ پوری دنیا کے مہذب ممالک کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے مصدقہ رپورٹس کے مطابق شام اور لبنان کی اسرائیل کے خلاف شکایت کو امریکہ نے اسرائیل کے حق میں 2 اکتوبر1972 ء کو ویٹو کر دیا۔ 1973ء میں آٹھ ممالک کی مشرق وسطیٰ کی صورتحال بارے قرار داد کو امریکہ نے فروری 1973ء میں ویٹو کر دیا۔ 1975ء میں مصر لبنان کی اسرائیل پر پابندیوں کی قرارداد کو امریکہ نے 21 اگست 1975ء کو ویٹو کر دیا 1976ء میں کئی ممالک نے فلسطین اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر اسرائیل کے خلاف کاروائی کی درخواست مگر امریکہ بہادر نے 29 جون 1976ء کو ویٹو کر دیا۔ 1980ء میں تیونس کی فلسطینی عوام کے حقوق کے لئے درخواست کو30 اپریل1980ء کو امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے خلاف امریکہ نے 20جنوری 1982ء کو ویٹو کر دیا۔ مقبوضہ علاقوں کی خراب صورتحال بارے اردن کی درخواست کو امریکہ نے 2 اپریل 1982ء کو ویٹو کر دیا مسجد اقصیٰ پر حملے کے خلاف درخواست کو امریکہ نے 20اپریل 1982ء کو ویٹو کر دیا۔ لبنان کے معاملے پر سپین کی قرار داد کو امریکہ نے 8جون1982 ء کو ویٹو کر دیا۔ سوویت یونین کی لبنان ایشو پر قرار داد کو امریکہ نے 6اگست1982ء کو ویٹو کر دیا۔ 1983ء میں بیس ممالک کی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف قرار داد کو امریکہ نے 2اگست1983ء کو ویٹو کر دیاامریکہ سلامتی کونسل میں فلسطینیوں کے حق میں پیش کی گئی قرارداوں کو ہمیشہ سے ویٹو کر تا رہا ہے اور 1972ء سے اب تک فلسطینیوں کے حق میں جتنی بھی گئی قراردادیں لائی گئیں انھیں امریکہ ویٹو کرتا چلا آرہا ہے اسرائیل دنیا بھر میں واحد ملک ہے جس کے خلاف سب سے زیادہ قراردادیں پیش کی گئی ہیں مگرہر بار اسے امریکی چھتری نے تحفظ فراہم کیا۔ایک اطلاع کے مطابق ا سرائیل کے پاس 260 ایٹم بم بھی موجود ہیں مگر اسرائیل ایسے نام نہاد امن دشمن ملک کے سامنے امریکہ اور اس کے حواری ممالک ہمیشہ بھگی بلی بنے اس کی حمایت پر کمربستہ نظر آتے ہی ان ملکوں کی نگاہ میں ایٹمی طاقت اسرائیل نہتے فلسطین کے مقابلے میں پر امن ہے اور وہ اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے جب کہ مظلوم فلسطینی مسلمانو ں کو اس حق سے محروم رکھنا مغرب اور اس کے اتحادیوں کا منشور ہے مندرجہ بالا حقائق کو سامنے رکھیں تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا باعث اسرائیل دنیا بھر میں واحد ملک ہے جس کے خلاف سب سے زیادہ قراردادیں پیش کی گئی ہیں مگرہر بار اسے امریکی چھتری نے تحفظ فراہم کیا۔ غزہ میں برپا جنگ کے مندرجہ بالا واقعات کو سامنے رکھیں تو صاف واضح ہو تا ہے کہ یہ جنگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے فلسطینیوں پر مسلط کی گئی ہے جو 1967ء سے جاری ہے۔اسرائیل کو ہر طرح کی امریکی امداد و حمایت حاصل ہے حال ہی میں امریکہ نے اسرائیلی فورسز کو 20ارب ڈالرز کا اسلحہ بارود جس میں لڑاکا طیارے میزائل اور دیگر حربی سامان شامل ہے دے کر اس نہ ختم ہونے والی جنگ کو مزید طول دینے اور عالمی امن وامان کو تباہ وبرباد کرنے کا آغاز کر دیاہے۔اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا باعث امریکہ اور اسرا ئیل اور بھارت ہیں۔کسی ایک یہودی کا قتل ہو تا ہے تو لادین مغربی لابی متحرک ہو جاتی ہے اور اس کا بدلہ لیا جاتا ہے مگر خون مسلم کی ارزانی دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔غزہ میں ہزاروں معصوم افراد بمباری میں ہلاک کیے جا چکے ہیں سوشل میڈیا پر روح فرسا مناظر بھی بے ضمیر دنیا کی آنکھیں نہیں کھول سکے۔ یو این او کی سلامتی کونسل میں قیام امن کیلئے پیش کردہ قرادادیں ویٹو کردی جاتی ہیں اور سلامتی کونسل کے اکثریتی ارکان منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں یہ سراسر ناانصافی او ر ظلم ہے۔اقوام عالم کو مل جل کر اسی ویٹو پاور کو جو مظلوموں کے انصاف دلانے کی راہ میں رکاوٹ ہو کو فوری طور پر ختم کرنے کیلئے جنرل اسمبلی میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔تاکہ دنیا سے ظلم اور جبر کا نظام ختم ہو سکے اور مظلوم اقوام کو انصاف مل سکے۔ اوراقوام عالم امن اور چین کیساتھ رہ سکیں۔ مسلم دنیا کی اپنی تنظیم او آئی سی کا شرمناک کردار بھی اس سے مختلف نہیں جو ان اپنے اہم سلگتے ہو ئے مسائل سے دانستہ چشم پوشی کئے بیٹھے ہیں۔ اہ آئی سی OIC,,کے غزہ میں محصور، مظلوم نہتے فلسطینیوں پر مظالم اور انکی نسل کشی بارے نومبر 2023ء اور بعد ازاں منعقدہ کئی اجلاسوں کی کاکردگی نے امت مسلمہ اور فلسطینیوں کو انتہائی حد تک مایوس کیا۔ جس میں فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف کاروائی کی نوبت ہی نہ آئی البتہ یہ تمام اجلاس نشستن گفتن برخاستن تک محدود رہے اوراراکین او آئی سی حسب سابق زبانی جمع خرچ کرنے اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں پرجمے رہے۔یہاں تک کہ اسرائیل کیساتھ سفارتی سیاسی اور معاشی بائیکاٹ کرنے پر بھی اتفاق نہ کرسکے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا آپس کے اختلافات فوری طور پر ختم کرکے اپنی تنظیم کو بہتر بنائیں اور اپنے فیصلے اس نام نہاد انجمن اقوام متحدہ میں لے جا کر اغیار کے سامنے ذلیل وخوار ہونے سے بچ کر خود سے حل کریں۔ نہیں تو ان کو یہودیت اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے تحت ایک ایک کرکے ہڑپ کر لے گی۔۔۔اسرائیل کے مغربی کنارے پر قتل عام کے سلسلے کو ایک سال ہونے کو ہے مگرمسلم ممالک کی طرف سے عملی اقدام نہیں اٹھا یا گیا یہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی اور منافقت کی شرمناک مثال ہے۔ اسرائیل امریکی حمایت کیساتھ فلسطینیوں کی نسل کشی کرکے گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔ جبکہ فلسطینی تنہا بیت المقدس کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اسرائیل بمباری سے غزہ کا 80 فیصد حصہ تباہ وبرباد ہو چکاہے۔ پانی،خوراک، انسانی جان بچانے والی اودیات اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کی شدید ترین قلت کے باعث محصورفلسطینی مر رہے ہیں۔سکول مساجد اور پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیل وحشیانہ بمباری کرکے فسطاطیت کا عملی مظاہرہ کر رہا ہے۔اس وقت اہل غزہ تار یخ کے بد ترین مظالم برداشت کرکے اپنے وجود کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔ماہ ستمبر میں اسرائیل نے ایک بہت بڑے حملے کا اغاز کردیاہے۔ جس میں سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے۔ نیتن یاہو اور اس کے چیلے چانٹے امریکی دجالی فتنے ہیں جو دنیا میں فساد بپا کرنے کا آغاز کرچکے ہیں۔ بیت اللحم میں بھی گولیاں برسائی جارہی ہیں۔ذخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینسز کو بھی بھی روکا جا رہا ہے۔ملحقہ علاقوں جنین،طولکرم،اور نور شمس میں بجلی کی لائنیں کاٹ دی گئیں اور انٹر نیٹ سروس بھی بند کر دی گئی ہے۔اس علاقے کو چاروں طرف سے محاصرے میں لے کر ہر قسم کی نقل وحرکت کے راستے بندکردئے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن غفیر کا حالیہ بیان کی جلدہی مسجد اقصیٰ میں یہودی عبادت گا تعمیر کی جائے گی جو گریٹر اسرائیلی منصوبے کی طرف واضح اشارہ اور مسلم حکمرانوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ مسلم حکمرانوں کو اسرائیل کے خلاف متفقہ طور پر فوری اعلان جنگ کر دینا چاہیے۔اگر عملی اقدامات نہ کئے گئے تو،، تمہاری داستاں تک نہ رہے گی داستاں میں،، کے مصداق امت مسلمہ کو کئی اور ناقابل بیان نتائج بھگتنا پڑیں گے۔کیونکہ صیہونیت ایک فسادی قوم ہے۔جس کی تاریخ مظالم اور فسطا ئی اقدامات سے لبریز ہے۔اگر اسوقت مسلم ممالک کوئی ٹھوس اور مثبت اقدام نہیں اٹھاتے تو پھر یہ 57ممالک اپنی سلامتی کی خیر منائیں۔۔محض مزاحمتی بیانات اور نیتن یاہو کو جنگی مجر م کہہ دینے سے اسرائیلی مظالم کو روکا نہیں جا سکتا۔اس وقت تودیکھنا ہو گا کہ کونسا مسلم حکمران کس کیساتھ کھڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نے واضح طور پر قرآن مجید میں فرمادیا ہے۔۔۔۔ان ظالم لوگوں کی طرف نہ جھکنا ورنہ تم بھی جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے،اورا للہ کے سوا (بچانے والا) کوئی سرپرست تمہیں نہ ملے گا۔ اور نہ ہی ملے گی (اللہ کی طرف سے) مددبھی۔ (ہود ؛ 114)
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
ابو فیصل محمد منظور انور
نوٹ۔یہ مضمون مصنف کی ذاتی آرء اور خیالات پر مبنی ہے ادارہ کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *