728 x 90

پاکستان میں بڑے سیلابوں کا تجزیہ: 2010، 2022 اور 2025 کے نقصانات، اقدامات اور عالمی حکمت عملیوں کا تقابلی جائزہ

پاکستان میں بڑے سیلابوں کا تجزیہ: 2010، 2022 اور 2025 کے نقصانات، اقدامات اور عالمی حکمت عملیوں کا تقابلی جائزہ

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ حالیہ برسوں میں، سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں رہا بلکہ اس کی شدت اور اثرات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ ناقص منصوبہ بندی اور انسانی عوامل ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلابوں بالخصوص 2010، 2022، اور 2025 کے واقعات کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا ہے تاکہ ان سے ہونے والے نقصانات، حکومتی اور عالمی اداروں کے اقدامات، اور مستقبل کے لیے قابلِ عمل حکمت عملیوں کو سمجھا جا سکے۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ حالیہ برسوں میں، سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں رہا بلکہ اس کی شدت اور اثرات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ ناقص منصوبہ بندی اور انسانی عوامل ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلابوں بالخصوص 2010، 2022، اور 2025 کے واقعات کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا ہے تاکہ ان سے ہونے والے نقصانات، حکومتی اور عالمی اداروں کے اقدامات، اور مستقبل کے لیے قابلِ عمل حکمت عملیوں کو سمجھا جا سکے۔

تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہر آنے والا بڑا سیلاب پچھلے سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو رہا ہے، جس سے جانی و مالی نقصانات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تباہی ایک پیچیدہ سماجی و معاشی بحران کا جنم دیتی ہے، جہاں غربت، کمزور انفراسٹرکچر، اور سیلابی گزرگاہوں پر بے ہنگم تعمیرات جیسی انسانی کمزوریاں قدرتی آفت کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ عالمی امدادی کوششوں کے باوجود، وعدہ کی گئی مالی امداد کی سست روی بحالی کے عمل میں ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ فوری امدادی کارروائیوں سے ہٹ کر طویل مدتی اور مربوط حکمت عملیوں کی اشد ضرورت ہے، جس میں پیشگی انتباہی نظاموں، آب و ہوا سے لچکدار بنیادی ڈھانچے، اور عالمی مثالوں (جیسے جاپان، ڈنمارک اور ویتنام) سے سبق سیکھتے ہوئے قدرتی اور انجینئرڈ حلوں کا امتزاج شامل ہو۔

پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اسے ہر سال مون سون کی شدید بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی کے خطرے سے دوچار کرتا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات نے ان قدرتی واقعات کو غیر معمولی آفات میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ سیلاب اب محض موسمی رجحان نہیں رہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی، ناقص شہری منصوبہ بندی، اور غیر پائیدار زمین کے استعمال جیسے عوامل کا مجموعہ بن چکے ہیں ۔ مذکورہ رپورٹ کا مقصد پاکستان میں سیلاب کی تاریخ، اس کے نقصانات، قومی و عالمی سطح پر کیے گئے اقدامات، اور دنیا بھر کی کامیاب حکمت عملیوں کا ایک جامع تجزیہ پیش کرنا ہے۔

اس تحقیق میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کی پالیسیوں، اقوام متحدہ (UN) کے اداروں (UNDP، OCHA، UNICEF، WFP)، عالمی بینک (World Bank) اور ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) کی رپورٹس، اور مختلف خبر رساں اداروں کے مواد کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس تجزیے کا مقصد نہ صرف اعداد و شمار فراہم کرنا ہے بلکہ ان کے پیچھے موجود سماجی، معاشی اور ماحولیاتی عوامل کو بھی سمجھنا ہے، تاکہ مستقبل کے لیے مؤثر پالیسیاں اور حکمت عملی تجویز کی جا سکیں۔ یہ رپورٹ اس حقیقت کو اجاگر کرے گی کہ پاکستان میں پائیدار ترقی اور سماجی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سیلاب کی روک تھام اور انتظام کو اولین ترجیح دینا کیوں ضروری ہے۔

پاکستان میں بڑے سیلابوں کا تاریخی پس منظر

2010 کا “سپر فلڈ”: تباہی کا آغاز

2010 میں مون سون کی شدید بارشوں نے پاکستان میں ایک ایسی تباہی کو جنم دیا جسے ملک کی تاریخ کے بدترین سیلابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس سیلاب نے پاکستان کے ایک تہائی رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے 20 ملین افراد براہ راست متاثر ہوئے ۔ یہ آفت دریائے سندھ میں طغیانی کی وجہ سے اس قدر شدید تھی کہ ملک کے بڑے حصے میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ اس سانحے میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، اور بڑے پیمانے پر زرعی زمین اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا ۔

نقصانات کا اندازہ مختلف رپورٹس میں مختلف پایا جاتا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، اس سیلاب سے ملکی معیشت کو تقریباً 4.3 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ، جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کی ایک مشترکہ رپورٹ نے یہ نقصان 9.7 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا ۔ اس تضاد کی وجہ یہ ہے کہ نقصانات کا مکمل اندازہ مختلف اوقات میں اور مختلف طریقوں سے لگایا جاتا ہے۔ تاہم، دونوں ہی اعداد و شمار ملک پر پڑنے والے معاشی دباؤ کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں۔ سیلاب کے نتیجے میں 1.1 ملین سے زائد مکانات تباہ ہوئے اور 436 طبی مراکز کو نقصان پہنچا، جس نے بحالی اور امدادی کارروائیوں کو مزید پیچیدہ بنا دیا ۔

2022 کا غیر معمولی سیلاب: موسمیاتی تباہی کی انتہا

2022 کا سیلاب اپنی وسعت اور تباہی کے لحاظ سے 2010 کے سیلاب سے بھی زیادہ شدید ثابت ہوا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، اس غیر معمولی سیلاب نے تین کروڑ سے زیادہ آبادی کو متاثر کیا جس میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ۔ جن میں سے بہت سے لوگوں کو عارضی کیمپوں میں پناہ لینی پڑی ۔

نقصانات کا دائرہ کار غیر معمولی تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، 2.2 ملین سے زیادہ مکانات تباہ ہوئے، 4.4 ملین ایکڑ سے زائد فصلیں سیلاب برد ہو گئیں، اور 8 لاکھ مویشیوں کی ہلاکت ہوئی ۔ بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا، جس میں 8,000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں اور 440 پل شامل ہیں ۔ ان نقصانات کا مالی تخمینہ 14.9 سے 15.2 ارب امریکی ڈالر تک لگایا گیا ۔ اس سیلاب کی بڑی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی معمول سے کہیں زیادہ بارشیں شامل تھیں، جہاں سندھ میں 784 فیصد اور بلوچستان میں 500 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں ۔

2025 کے حالیہ واقعات: مسلسل خطرے کی علامت

2025 کے حالیہ مون سون سیزن نے ایک بار پھر پاکستان کے مختلف حصوں کو شدید سیلاب سے دوچار کیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، اس سیلاب میں 880 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے، اور پنجاب میں اب تک 40 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ۔ خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر اور سوات میں شدید فلیش فلڈز آئے، جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔ پنجاب میں دریائے چناب اور راوی میں طغیانی کے نتیجے میں 8,400 سے زائد دیہات اور 10 لاکھ ایکڑ زرعی زمین زیرِ آب آئی ۔

2010 کے بعد 2022 اور پھر 2025 میں بڑے سیلابوں کی آمد ایک واضح رجحان کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ محض قدرتی آفات نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کی نشاندہی کرتی ہیں، جو مسلسل اور زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ نقصانات کا یہ سلسلہ بتاتا ہے کہ ہر نئی آفت پچھلی سے زیادہ تباہ کن ہوتی ہے۔ یہ رجحان اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ سیلاب کے نقصانات میں اضافے کی وجہ صرف شدید بارشیں نہیں ہیں، بلکہ اس میں انسانی عوامل، جیسے کمزور انفراسٹرکچر، غربت، اور دریاؤں کے کناروں پر بڑھتی ہوئی غیر منظم آبادی بھی شامل ہے ۔

پاکستان میں بڑے سیلابوں کا تاریخی جائزہ (2010، 2022، اور 2025)

سالمتاثرہ علاقےجانی نقصان (ہلاکتیں)متاثرہ/بے گھر افرادمعاشی نقصان (تخمینہ)
2010ملک کا ایک بٹا پانچ حصہ 51,700+ 20 ملین متاثر $4.3 – $9.7 ارب
2022ملک کا ایک تہائی حصہ1,700+ 30 ملین+ متاثر، 80 لاکھ بے گھر $14.9 – $15.2 ارب
2025خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ800+ 1-2 ملین بے گھر/منتقل اربوں روپے

نقصانات کا گہرا تجزیہ اور سماجی و معاشی اثرات

انسانی اور سماجی نقصان

سیلاب کا سب سے گہرا اثر انسانی زندگیوں اور سماجی ڈھانچے پر ہوتا ہے۔ 2022 کے سیلاب میں 80 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، جنہیں طویل عرصے تک عارضی کیمپوں میں رہنا پڑا، اور جنوری 2024 تک بھی 13 لاکھ افراد بے گھر تھے ۔ سیلاب کے بعد کھڑے پانی نے ملیریا، ڈینگی اور ہیضہ جیسی بیماریوں کو جنم دیا، جو تیزی سے پھیلیں ۔ یہ وبائیں صحت کے کمزور نظام پر مزید بوجھ بنیں۔

دیہی علاقوں میں سیلاب کے غیر متناسب اثرات سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ 2010 کے سیلاب پر کیے گئے ایک سروے کے مطابق، دیہی گھرانوں میں غربت کی شرح زیادہ تھی اور ان کے مکانات زیادہ تر کچی مٹی سے بنے ہوئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب کے دوران دیہی آبادی زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ جب ان کے مکانات اور آمدنی کے ذرائع تباہ ہو جاتے ہیں، تو وہ غربت کے ایک ایسے چکر میں پھنس جاتے ہیں جہاں سے نکلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ دیہی خواتین، بچے اور معذور افراد امداد اور خدمات تک مساوی رسائی سے محروم رہتے ہیں، جس سے ان کی تکالیف میں مزید اضافہ ہوتا ہے ۔

معاشی اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان

سیلاب کی وجہ سے معاشی نقصانات کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ 2022 کے سیلاب میں 4.4 ملین ایکڑ سے زائد فصلیں تباہ ہو گئیں اور 8 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے ۔ اس تباہی سے نہ صرف کسانوں کی آمدنی تباہ ہوئی بلکہ ملک میں غذائی قلت اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ۔ بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا، جس میں 8,000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں اور 440 پل شامل ہیں ۔ ان نقصانات کا مالی تخمینہ 14.9 سے 15.2 ارب امریکی ڈالر تک لگایا گیا ۔ ان نقصانات میں اضافہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی اور سماجی لچک کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے۔ 2010 کے 9.7 ارب ڈالر کے نقصان کے بعد 2022 کے 14.9 ارب ڈالر کے نقصانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہر نئی آفت ایک نئی انتہا قائم کرتی ہے۔

2010 اور 2022 کے سیلابوں سے نقصانات کا تقابلی جائزہ

نقصانات کی قسم2010 کے اعداد و شمار2022 کے اعداد و شمار
اموات1,700+ 1,700+
متاثرہ افراد20 ملین 30 ملین+
تباہ شدہ مکانات1.1 ملین2.2 ملین
تباہ شدہ فصلیں4.4 ملین ایکڑ
تباہ شدہ سڑکیں8,000+ کلومیٹر
معاشی نقصان$4.3 – $9.7 ارب $14.9 – $15.2 ارب

سیلاب سے بچاؤ اور انتظام کے اقدامات: قومی اور عالمی تناظر

پاکستان میں سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات

پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ NDMA باقاعدگی سے موسلادھار بارشوں اور ممکنہ سیلابوں کے حوالے سے الرٹ جاری کرتی ہے اور متعلقہ اداروں کو پیشگی اقدامات کرنے کی ہدایات دیتی ہے ۔ NDMA کے رہنما اصولوں میں سیلاب سے بچاؤ کے لیے تین مراحل کی حکمت عملی شامل ہے:

  • سیلاب سے پہلے: ابتدائی انتباہی نظام کو مضبوط بنانا، سیلاب پر قابو پانے کے لیے ڈیموں اور حفاظتی بندوں کی دیکھ بھال کرنا، اور سیلابی علاقوں میں تعمیرات کو روکنے کے لیے Zoning کو نافذ کرنا ۔
  • سیلاب کے دوران: ابتدائی انتباہی نظام کو فعال کرنا، انخلا کے منصوبوں پر عمل درآمد، اور پھنسے ہوئے افراد کی مدد کے لیے ریسکیو ٹیمیں تعینات کرنا ۔
  • سیلاب کے بعد: نقصانات کا فوری جائزہ لینا، متاثرہ افراد کو طبی اور دیگر امداد فراہم کرنا، اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے طویل مدتی منصوبے بنانا ۔

2022 کے سیلاب کے بعد، حکومت نے 2.8 ملین متاثرہ لوگوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے ذریعے 70 ارب روپے کی نقد امداد فراہم کی، جس میں عالمی بینک کا تعاون بھی شامل تھا ۔

عالمی اداروں کا کردار اور امدادی کوششیں

اقوام متحدہ کے ادارے، جیسے امدادی امور کے لیے رابطہ دفتر (OCHA) اور عالمی پروگرام برائے خوراک (WFP)، سیلاب کی ہنگامی صورتحال کے دوران فوری امدادی کارروائیوں میں سرگرم رہے، جس میں خوراک، پانی، ادویات اور پناہ گاہوں کی فراہمی شامل ہے ۔

عالمی پروگرام برائے خوراک (WFP) نے گرین کلائمیٹ فنڈ (GCF) کے تعاون سے پاکستان میں ایک جدید منصوبہ شروع کیا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر اور شانگلہ میں خودکار موسمیاتی نظام اور ہائیڈرومیٹرولوجیکل سٹیشن قائم کیے جائیں گے تاکہ 16 لاکھ افراد کو شدید بارشوں اور سیلاب سے بروقت تحفظ دیا جا سکے ۔

اس کے باوجود، عالمی برادری کی جانب سے امداد کی فراہمی میں سست روی ایک اہم چیلنج رہی ہے۔ 2022 کے سیلاب کے بعد جنیوا کانفرنس میں 10.44 ارب ڈالر کے قرض اور 54 کروڑ ڈالر کی گرانٹ کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن تین سالوں میں صرف 4.69 ارب ڈالر موصول ہوئے، اور گرانٹس میں سے صرف 21 لاکھ ڈالر ملے ۔ یہ سست روی بحالی کے منصوبوں کے لیے مالی غیر یقینی پیدا کرتی ہے اور متاثرہ آبادی کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔

NDMA کے سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات

مرحلہاداروں کے اقداماتکمیونٹی اور افراد کے اقدامات
سیلاب سے پہلےابتدائی انتباہی نظام کی تیاری، ڈیموں اور بندوں کی دیکھ بھال، خطرے سے آگاہی مہم ہنگامی کٹ تیار کرنا، انخلا کے راستوں سے آگاہی حاصل کرنا، حکام کی ہدایات پر عمل کرنا
سیلاب کے دورانریسکیو ٹیمیں تعینات کرنا، انخلا کے منصوبوں پر عمل درآمد، عارضی پناہ گاہیں بنانا محفوظ مقامات پر منتقلی، سیلابی پانی میں چلنے سے گریز، حکام کے ساتھ رابطہ
سیلاب کے بعدنقصانات کا جائزہ، فوری طبی امداد کی فراہمی، بنیادی ڈھانچے کی بحالی املاک کا جائزہ لینا، صفائی ستھرائی کا اہتمام، طبی امداد حاصل کرنا

عالمی مثالیں اور بہترین حکمت عملی

کامیاب سیلاب سے بچاؤ کے ممالک کی مثالیں

دنیا بھر میں کئی ایسے ممالک ہیں جنہوں نے سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی ہے۔

جاپان

جاپان نے، جو زلزلوں اور طوفانوں جیسی آفات کا مستقل شکار رہا ہے، سیلاب کے انتظام میں ایک جامع حکمت عملی اپنائی ہے ۔ یہ حکمت عملی صرف انجینئرڈ حلوں جیسے ڈیم اور حفاظتی بندوں پر ہی انحصار نہیں کرتی بلکہ اس میں قدرتی نظاموں پر مبنی حل (Nature-based Solutions)، کمیونٹی کی شمولیت اور خطرے پر مبنی شہری منصوبہ بندی بھی شامل ہے ۔ اس کا جدید نقطہ نظر ‘دریائی گزرگاہوں کی لچک اور سب کی مدد سے پائیداری’ (River Basin Disaster Resilience and Sustainability by All) کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں سیلاب کی روک تھام، خطرے کو کم کرنا، اور مناسب انخلا و بحالی شامل ہیں 20۔ یہ “گرے انفراسٹرکچر” (جیسے کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے زیر زمین ڈھانچے) اور “گرین انفراسٹرکچر” (جیسے کہ بارش کا پانی جذب کرنے والے باغات اور عوامی آگاہی پروگرام) کا امتزاج ہے ۔

ڈنمارک

ڈنمارک کا دارالحکومت کوپن ہیگن، 2011 کے ایک بڑے سیلاب کے بعد، شہر کو “ایک دیو قامت اسپنج” میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے ۔ یہ حکمت عملی میں ‘کلاؤڈ برسٹ مینجمنٹ پلان’ میں “بلیو اینڈ گرین انفراسٹرکچر” کو مربوط کیا گیا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت شہری علاقوں میں پارکوں، سرنگوں اور عوامی جگہوں کو پانی کے انتظام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس میں پانی کو جذب کرنے والے علاقوں، مصنوعی دلدلوں اور نکاسی کے راستوں کو بہتر بنایا گیا ہے تاکہ بارش کے شدید پانی کو روکا جا سکے ۔ یہ حکمت عملی نہ صرف سیلاب کے خطرے کو کم کرتی ہے بلکہ ماحولیاتی پائیداری کو بھی فروغ دیتی ہے ۔

ویتنام

ویتنام نے بھی سیلاب سے نمٹنے کے لیے اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی کی ہے، جس میں ڈیموں اور بندوں پر انحصار کم کرکے قدرتی حلوں کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ ورلڈ بینک کی مالی معاونت سے چلنے والے ایک منصوبے کے تحت، کین تھو شہر نے ساحلی علاقوں میں سیلاب سے بچاؤ کے لیے نئی دفاعی لائنز تیار کیں، جن میں سمندری لہروں کو روکنے کے لیے جدید فلڈ گیٹس اور اونچی سڑکوں کے ساتھ ساتھ نہروں کو بھی بہتر بنایا گیا ۔ یہ مربوط نظام شہر کو طغیانی والے سیلاب سے بچانے میں کامیاب رہا ہے ۔ اس کے علاوہ، ملک زرعی پیداوار کو متنوع بنانے کی پالیسی اپنا رہا ہے، جس میں سیلاب کے قدرتی بہاؤ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کمل کی کاشت اور مچھلی کے ساتھ چاول کی فصلیں اگانے جیسے طریقے شامل ہیں ۔

بنگلہ دیش

بنگلہ دیش، ایک اور ملک جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار ہے، نے سیلاب کے انتظام کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں ۔ ابتدائی طور پر اس کی توجہ بڑے ساختی منصوبوں پر تھی، جیسے کہ بند اور نکاسی کی نہروں کی تعمیر ۔ تاہم، بعد میں اس نے غیر ساختی اقدامات کو بھی شامل کیا، جیسے کہ سیلاب کی پیشگی اطلاع اور انتباہی نظام (FFWS) ۔ یہ نظام ملک کے سیلاب زدہ علاقوں کو 24 سے 48 گھنٹے پہلے حقیقی وقت میں سیلاب کی معلومات فراہم کرتا ہے ۔ بنگلہ دیش نے کمیونٹی کو سیلاب کے انتظام میں شامل کرنے کی ایک پالیسی بھی اپنائی ہے اور سیلابی گزرگاہوں پر تجاوزات کو روکنے کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے ۔

پاکستان کے لیے قابلِ عمل سبق

عالمی مثالیں یہ واضح کرتی ہیں کہ پاکستان کے لیے صرف ہنگامی امدادی کارروائیاں اور چند بڑے منصوبے کافی نہیں ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کے لیے ایک مربوط اور کثیر الجہتی نقطہ نظر اختیار کرنا ضروری ہے:

  1. پالیسی میں اصلاحات: دریاؤں کے کناروں اور سیلابی گزرگاہوں پر غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی اور اس کا مؤثر نفاذ ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف جانی نقصان کم ہوگا بلکہ قدرتی آبی گزرگاہوں کی بھی حفاظت ہوگی ۔
  2. ٹیکنالوجی کا استعمال: جدید Early Warning Systems، خودکار موسمیاتی سٹیشنز، اور پانی کے بہاؤ کی نگرانی کے آلات میں سرمایہ کاری کرنا ناگزیر ہے، جیسا کہ WFP کے منصوبے میں دکھایا گیا ہے ۔
  3. قدرتی حلوں کا فروغ: جنگلات کی کٹائی روکنا اور نئے جنگلات لگانا، خاص طور پر بالائی علاقوں میں، پانی کے بہاؤ کو سست کرنے اور مٹی کے کٹاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔

نتائج اور سفارشات

کلیدی بصیرتیں اور نتائج

  1. بڑھتا ہوا موسمیاتی خطرہ: پاکستان میں ہر آنے والا بڑا سیلاب پچھلے سے زیادہ شدید اور تباہ کن ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کی عکاسی کرتا ہے ۔
  2. انسانی عوامل کا کردار: سیلاب کے نقصانات صرف قدرتی نہیں بلکہ ناقص منصوبہ بندی، کمزور انفراسٹرکچر اور غربت کا ایک پیچیدہ امتزاج ہیں ۔
  3. بحران کا چکر: سیلاب سے ہونے والے نقصانات غربت اور بے گھری کا ایک مسلسل چکر پیدا کرتے ہیں، جو متاثرین کو مستقبل کی آفات کے لیے مزید کمزور کر دیتے ہیں ۔
  4. عالمی امداد کی سست روی: عالمی برادری کی جانب سے وعدہ کی گئی مالی امداد کی سست روی پاکستان کی طویل مدتی بحالی کے منصوبوں میں ایک اہم رکاوٹ ہے ۔

تفصیلی سفارشات

اس تجزیے کی بنیاد پر، پاکستان کو مستقبل کے سیلابوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:

  • پالیسی اور گورننس کی سطح پر:
  • ایک جامع اور مربوط قومی سیلاب انتظامی پالیسی تیار کی جائے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کو مرکزی حیثیت دی جائے۔
  • دریاؤں کے کناروں اور سیلابی گزرگاہوں پر غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان کا سختی سے نفاذ یقینی بنایا جائے۔
  • بنیادی ڈھانچے اور انجینئرنگ کے حل:
  • جدید Early Warning Systems میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائے، جیسا کہ WFP اور جاپان کے منصوبوں میں کیا جا رہا ہے ۔
  • سڑکوں، پلوں اور گھروں کی تعمیر نو میں ایسے مواد اور ڈیزائن کا استعمال کیا جائے جو سیلاب اور شدید بارشوں کا مقابلہ کر سکیں۔
  • جنگلات اور مٹی کے تحفظ کے منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ قدرتی طور پر پانی کے بہاؤ کو سست کیا جا سکے اور زیرِ زمین پانی میں اضافہ ہو ۔
  • کمیونٹی کی سطح پر تیاری اور آگاہی:
  • مقامی برادریوں کو سیلاب انتظامی حکمت عملیوں میں شامل کیا جائے اور انہیں فوری ردعمل کی تربیت دی جائے ۔
  • عوام کو NDMA کی Disaster Alert App اور دیگر حفاظتی اقدامات کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر مہمات چلائی جائیں ۔

ان سفارشات پر عمل درآمد سے پاکستان نہ صرف سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو کم کر سکتا ہے بلکہ ایک زیادہ لچکدار اور پائیدار مستقبل کی بنیاد بھی رکھ سکتا ہے۔

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos