غربت پاکستان میں کئی دہائیوں سے ایک مشکل مسئلہ رہا ہے ، مگر گزشتہ پانچ سالوں پاکستان میں غربت کا مسئلہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ کورونا وبا، 2022 کے شدید سیلاب، سیاسی عدم استحکام، مالیاتی بحران، اور مہنگائی نے پاکستان کے لاکھوں افراد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا۔ عالمی بینک ورلڈ بنک نے 2019 سے 2025 تک مختلف رپورٹس جاری کی ہیں جن میں غربت کی نوعیت، اسباب اور ممکنہ حل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان رپورٹس کا مطالعہ پاکستان میں غربت کے بدلتے ہوئے رجحانات اور مستقبل کے خطرات کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
غربت پاکستان میں کئی دہائیوں سے ایک مشکل مسئلہ رہا ہے ، مگر گزشتہ پانچ سالوں پاکستان میں غربت کا مسئلہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ کورونا وبا، 2022 کے شدید سیلاب، سیاسی عدم استحکام، مالیاتی بحران، اور مہنگائی نے پاکستان کے لاکھوں افراد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا۔ عالمی بینک ورلڈ بنک نے 2019 سے 2025 تک مختلف رپورٹس جاری کی ہیں جن میں غربت کی نوعیت، اسباب اور ممکنہ حل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان رپورٹس کا مطالعہ پاکستان میں غربت کے بدلتے ہوئے رجحانات اور مستقبل کے خطرات کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
تقریباً دو دہائیوں تک، پاکستان نے غربت کے خلاف جدوجہد میں نمایاں پیش رفت کی جب ملک کی غربت کی شرح 2001 سے 2018 کے درمیان 64% کی حیران کن سطح سے گر کر صرف 22% رہ گئی۔ یہ شاندار کامیابی غیر رسمی شعبے میں محنت کشوں کی آمدنی میں اضافے اور زراعت سے کم ہنر مند خدمات کی طرف منتقلی سے حاصل ہوئی۔ لاکھوں پاکستانی غربت کے شکنجے سے نکل گئے اور امید کی کرن جاگی۔
تاہم، حالیہ برسوں میں ملک کی یہ شاندار پیش رفت رُک گئی ہے، اور برسوں کی محنت سے حاصل شدہ کامیابیاں زائل ہونے لگی ہیں، جیسا کہ پاکستان کی حالیہ “غربت، مساوات اور لچک کی جانچ” رپورٹ میں اجاگر کیا گیا ہے۔ جن نوکریوں نے لوگوں کو غربت سے نکالا، وہ زیادہ تر غیر رسمی اور کم پیداواری تھیں، جن میں غریب مزدوروں کی حقیقی اجرت میں اضافے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر رہی2011 سے 2021 کے درمیان صرف 2–3%—جس سے خاندانوں کے لیے معاشی فوائد سے حقیقی فائدہ اٹھانا مشکل ہو گیا۔ 2018 تک، 14% آبادی انتہائی کمزور رہی، جو غربت کی لکیر سے ذرا اوپر تھی اور کسی بھی جھٹکے کے نتیجے میں دوبارہ اس میں گرنے کے خطرے سے دوچار تھی۔
عالمی بنک کی سابقہ رپورٹس کیا کتہیں ہیں؟
پاکستان میں غربت کے حوالے عالمی بنک نے گزشتہ سالوں کے دوران متعدد رپورٹس شائع کیں جن میں غربت حوالے سے اعداد وشمار اور عوامل پر رائے دی گئی ہے یہاں پر پہلے ہم کچھ گزشتہ رپورٹس کے بارے دیکھتے ہیں کہ عالمی بنک کی ان رپورٹس میں کیا ہے؟
2019 کی رپورٹ: ابتدائی تناظر
2019 میں عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ پاکستان میں غربت میں کمی کا عمل رکاوٹ کا شکار ہے۔ اگرچہ 2001 سے 2015 تک غربت میں نمایاں کمی آئی تھی، مگر اس کے بعد معاشی سست روی اور روزگار کے مواقع کم ہونے کے باعث بہت سے گھرانے غربت کی لکیر کے قریب زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ عالمی بینک کے مطابق 2019 میں تقریباً 39 فیصد آبادی غربت کے خطرے سے دوچار تھی۔
2020–21: کورونا وبا اور غربت کا دباؤ
عالمی وبا نے پاکستان میں غربت کے اعداد و شمار کو بری طرح متاثر کیا۔ World Bank Pakistan Development Update 2021 کے مطابق، کورونا کی وجہ سے بے روزگاری اور مہنگائی نے لاکھوں افراد کو غربت میں دھکیل دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کی GDP میں 0.5 فیصد سکڑاؤ آیا جبکہ دیہاڑی دار مزدور اور کم آمدنی والے گھرانے سب سے زیادہ متاثر ہوئے
2022: سیلاب اور غربت کا دھماکہ
پاکستان میں 2022 کے تباہ کن سیلاب نے غربت کے بحران کو کئی گنا بڑھا دیا۔ عالمی بینک کی Pakistan Floods 2022 Post-Disaster Needs Assessment (PDNA) رپورٹ کے مطابق، سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے جبکہ 9 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ فصلوں کی تباہی، مکانات کی بربادی اور صحت کے مسائل نے غریب گھرانوں پر سب سے زیادہ اثر ڈالا۔
2023: غربت اور مہنگائی کا دباؤ
2023 میں عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق، مہنگائی کی شرح 29 فیصد تک پہنچنے سے غربت میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ خوراک اور توانائی کی قیمتوں نے غریب گھرانوں کو شدید متاثر کیا، اور کم از کم 4 کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ عالمی بینک نے اس وقت خبردار کیا کہ اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو غربت کا دائرہ مزید وسیع ہوگا۔
2024: غربت اور معاشی دباؤ کی تسلسل
اپریل 2024 کی Pakistan Development Update میں عالمی بینک نے لکھا کہ غربت پاکستان کے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک بن چکی ہے۔ معاشی سست روی، قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی نے صورتحال مزید خراب کر دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 37 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے، اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح شہری علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔
2025: تازہ ترین رپورٹ
ستمبر 2025 کی عالمی بینک رپورٹ اگرچہ کچھ معاشی استحکام آیا ہے مگر غربت اب بھی ایک بڑے بحران کی شکل میں موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق کے 2015 کے بعد پاکستان کی غربت میں کمی کی رفتار نمایاں طور پر سست ہو گئی۔ 2001 سے 2015 تک، غربت کی شرح ہر سال اوسطاً تین فیصد پوائنٹس کم ہوئی۔
لیکن 2015 سے 2018 کے درمیان، یہ رفتار ایک فیصد پوائنٹ سالانہ سے بھی کم رہ گئی۔ 2020 کے بعد، کئی بحرانوں کے ایک ساتھ آنے نے ملک کی غربت میں کمی کی کہانی کی کمزوریاں بے نقاب کر دیں۔ کووِڈ-19 وبا نے شدید صحت اور معاشی بحران پیدا کیا، جس نے غیر رسمی شعبے—جو 85% سے زیادہ پاکستانیوں کی روزگار کا سہارا ہے—کو سخت متاثر کیا۔ نوکریاں ختم ہو گئیں، آمدنی تیزی سے گری اور شہری غریبوں نے شدید نقصان اٹھایا۔ قومی غربت کی شرح بڑھ کر 24.7% ہو گئی۔
معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے قوتِ خرید کو مزید کم کر دیا اور 2022 کے تباہ کن سیلاب نے 3 کروڑ 30 لاکھ لوگوں کو متاثر کیا، گھر تباہ کیے اور روزگار ختم کر دیے۔ مزید 1 کروڑ 30 لاکھ پاکستانی غربت میں دھکیل دیے گئے، جس سے 2023-24 تک متوقع غربت کی شرح 25.3% تک پہنچ گئی۔ غریب ترین طبقہ ایک بار پھر سب سے زیادہ متاثر ہوا، تقریباً ہر تین میں سے ایک غریب گھرانے نے براہِ راست نقصان کی اطلاع دی۔
لیکن ان آفات کو مکمل ذمہ دار قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ اصل کہانی ان ڈھانچہ جاتی کمزوریوں میں ہے جنہوں نے گھروں کو ابتدا ہی سے اتنا کمزور بنا دیا۔ پاکستان کا معاشی ماڈل طویل عرصے سے کھپت پر مبنی ترقی، کم سرمایہ کاری اور بار بار آنے والے بوم اینڈ بسٹ چکروں پر مشتمل رہا ہے۔ جہاں کھپت نے جی ڈی پی میں مستقل اضافہ کیا، وہیں نجی سرمایہ کاری جمی رہی۔ بڑھتے ہوئے عوامی قرضے اور مالیاتی سختیاں ریاست کی صلاحیت کو انسانوں اور بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری سے محروم کرتی رہیں۔
اسی وقت، عوامی خدمات کی نامکمل اور غیر مساوی منتقلی نے مقامی سطح پر خدمات کی فراہمی کو کمزور، ٹیکس کو غیر منصفانہ اور جوابدہی کو کمزور بنایا۔ مثال کے طور پر، مناسب طور پر برقرار نہ رکھی جانے والی سڑکیں نقل و حرکت کو شدید متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر غریب پاکستانیوں کے لیے، جس سے صحت اور تعلیم جیسی بنیادی خدمات تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔ یہ عدم مساوات عورتوں کو خاص طور پر متاثر کرتی ہے؛ مثلاً اگر سڑک 5 کلومیٹر سے زیادہ دور ہو تو لڑکیوں کے اسکول سے باہر ہونے کے امکانات لڑکوں کے مقابلے میں 76% زیادہ ہوتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے بھی کاروباری اعتماد اور سرمایہ کاری کو نقصان پہنچایا ہے۔
حتیٰ کہ غربت میں کمی کے سالوں میں بھی مواقع کی عدم مساوات گہری جمی رہی۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، غربت کی لکیر سے ذرا اوپر جمع رہی۔ ان گھروں کے پاس درمیانے طبقے میں واضح طور پر داخل ہونے کے وسائل نہیں تھے اور وہ معاشی یا ماحولیاتی جھٹکوں کے لیے انتہائی کمزور رہے۔ معیاری تعلیم، صحت کی سہولیات اور محفوظ روزگار سے محرومی کا مطلب یہ تھا کہ معمولی جھٹکے بھی انہیں دوبارہ غربت میں دھکیل سکتے تھے۔
سچ یہ ہے کہ ترقی مستقل نہیں ہوتی۔ بنیادی ڈھانچہ جاتی کمیوں کو دور کیے بغیر، سب سے حوصلہ افزا کامیابیاں بھی ختم ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کا تجربہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ غربت میں کمی صرف لوگوں کو ایک لکیر سے اوپر اٹھانے کا نام نہیں بلکہ ایسے نظام بنانے کا ہے جو ان کے مواقع اور بنیادی خدمات تک رسائی کو یقینی بنائیں تاکہ وہ اس لکیر سے اوپر خوشحال رہ سکیں۔
تارہ رپورٹ کچھ تجاویز بھی دی گئیں ہیں جس کے مطابق پاکستان کی رکی ہوئی پیش رفت کو واپس لانے کے لیے جرات مندانہ اور مربوط اقدامات درکار ہیں جو چار راستوں کے گرد گھومتے ہوں، جن کی بنیاد جامع ڈھانچہ جاتی اصلاحات ہوں تاکہ معیشت کو مستحکم کیا جا سکے اور نجی شعبے پر مبنی ترقی کو ممکن بنایا جا سکے۔
• انسانوں، مقامات اور مواقع تک رسائی میں سرمایہ کاری
پاکستان کے انسانی سرمائے کے بحران کو عوامی خدمات کی بہتری، تعلیم و صحت تک رسائی کے پھیلاؤ، مواقع پیدا کرنے—خصوصاً پسماندہ اور دور دراز اضلاع میں—اور مقامی طرزِ حکمرانی کو مضبوط بنانے سے حل کریں۔
• لچک پیدا کرنا
سماجی تحفظ کے جال، جیسے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، کو مزید مؤثر اور جامع بنایا جائے اور نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری کو وسعت دی جائے تاکہ جھٹکوں کے دوران کمزور آبادیوں کو بہتر تحفظ مل سکے۔
• ترقی پسند مالیاتی اقدامات کو ترجیح دینا
مالی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے سب سے غریب 40% گھروں کے لیے ترقی پسند مالیاتی اقدامات کو ترجیح دی جائے۔ اس میں منصفانہ ٹیکس پالیسیوں کا نفاذ، میونسپل فنانسنگ میں بہتری، اور ایسے غیر مؤثر سبسڈیز کا خاتمہ شامل ہے جو امیر طبقات کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔
• فیصلوں کے لیے بہتر ڈیٹا نظام کی ترقی
اعلیٰ معیار کے، بروقت اور تفصیلی ڈیٹا سسٹمز میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ اصلاحی اقدامات کی رہنمائی ہو اور شفاف، شواہد پر مبنی پالیسی سازی ممکن ہو۔
غربت میں اضافہ لازمی نہیں ہے۔ جرات مندانہ اور مربوط اقدامات کے ذریعے پاکستان کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتا ہے اور ایک زیادہ لچکدار اور جامع مستقبل تعمیر کر سکتا ہے۔ آگے کا سفر صرف معاشی ترقی سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے—یہ ایسے نظام بنانے کے عزم کا تقاضا کرتا ہے جو تمام پاکستانیوں کو تحفظ اور اختیار دیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ترقی صرف حاصل ہی نہ ہو بلکہ برقرار بھی رہے۔


















Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *