728 x 90

جنگ آزادی کا مجاہد جھنگ کے مراد فتیانہ کی داستان جس نے رائے احمد خان کھرل کا بدلہ لیا

جنگ آزادی کا مجاہد جھنگ کے مراد فتیانہ کی داستان جس نے رائے احمد خان کھرل کا بدلہ لیا

جھنگ کا مراد فتیانہ آزادی وطن کا عظیم مجاہد تھا جس نے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی حمایت اور انگریز کی مخالفت میں وہ کارنامہ انجام دیا جس کے لئے آج بھی تاریخ کے صفحات میں اسے آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔تحریک آزادی میں نواب احمد خان کھرل کا نام کسی سے ڈھکا چھپا

جھنگ کا مراد فتیانہ آزادی وطن کا عظیم مجاہد تھا جس نے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی حمایت اور انگریز کی مخالفت میں وہ کارنامہ انجام دیا جس کے لئے آج بھی تاریخ کے صفحات میں اسے آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔تحریک آزادی میں نواب احمد خان کھرل کا نام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن شاید یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں نواب احمد خان کھرل کو شہید کرنے والے انگریزاسسٹنٹ کمشنر برکلے کو مراد فتیانہ نے قتل کر کے نہ صرف رائے احمد خان کی شہادت کا بدلہ لے لیا بلکہ انگریز کو وہ ضرب لگائی جو انگریز کو مدتوں یاد رہی۔ مراد فتیانہ کا جداعلیٰ راء سیال تھا جو حضرت با با فرید الدین گنج شکر کے دست حق پرست پر مسلمان ہوا۔ اور حضرت بابا نے ہی ان کی شادی اپنی مرید قوم میکن کی ایک عورت سے کی۔ میکن قوم اس وقت بھکراورحیدرآباد تھل پر حکمران تھی اس قوم نے اپنے داماد راء سیال کو جاگیر دی جو دریا جہلم کے غربی کنارے پر تھی ۔ اس وقت سیال قوم کی کم و بیش ایک سو قریب شاخیں موجود ہیں جو سیال کہلانے کے ساتھ اپنے باپ راء سیال کے نام سے منسوب ہیں۔ راء سیال کی اولاد کی بارھویں پشت پر ماہنی سیالوں میں ایک شخص فتا گزرا ہے جس کی اولاد فتیانہ مشہور ہے۔ فتیانہ سیال جھنگ کے علاوہ اس وقت ضلع فیصل آباد، کمالیہ اور سرگودھا میں بھی آباد ہیں۔ چونکہ یہ تمام علاقے 1901 سے قبل ضلع جھنگ کی حدود میں شامل تھے بعد میں برطانوی حکومت نے جھنگ کے مختلف حصے کر دیئے۔ منٹگمری (ساہیوال) اور لائلپور(فیصل آباد) اسی ضلع کو کاٹ کر علیحدہ اضلاع بنائے گئے۔

مراد فتیانہ ولد دلیل فتیانہ روای اور چناب کے دو آبہ کا زمیندار تھا اور بہادر شاہ ظفر آخری مغل تاجدار کا انتہائی وفادار مراد فتیانہ کا نواب احمد خاں کھرل سے قلبی تعلق تھا۔ مراد کی جوانمردی کے واقعات کی ترتیب میں نواب احمد خان کھرل کی شخصیت کے خد و خال ملتے ہیں ۔

مورخین نے 1857 کی جنگ آزادی کے واقعات بیان کرتے ہو احمد خان کھرل کو نمایاں مقام دیا مگر احمد خان کی موت کا بدلہ لینے والے اور ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ایس برکلے کو موت کے گھاٹ اتارنے والے مراد فتیانہ کا صرف نام لکھنے پر اکتفا کیا اس کے علاوہ مذکورہ جنگ آزادی کے وقائع نگاروں نے اہل جھنگ او رپنجاب سے مجموعی انصاف نہیں کیا۔

 یہ درست ہے کہ پنجاب کے سکھوں اور ہندووں نے انگریز حکومت کی بالعموم حمایت کی اور مسلمان نیم وروں نیم بروں رہے لیکن جن مسلمان مجاہدین نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا فرنگیوں کی فوجی چھاؤنیاں تباہ کیں اعلیٰ انگریز افسران قتل کئے اور خود بہادری سے جام شہادت نوش کیا ان کے واقعات سے صرف نظر کرنا تذکرہ نویسوں کی کوتاہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وقائع نگاروں کو ان کے تفصیلی نہ مل سکے ہو لیکن آج ہم ان کوتاہیوں کی تلافی کر سکتے ہیں اور تاریخ کے ان جری جوانوں اور جیالوں کو خراج تحسین پیش کر کے سرخرو ہو سکتے ہیں۔ ستمبر1857 عمدہ کو جھنگ کے سیالوں اور کمالیہ کے کھرلوں کو نواب احمد خان کھرل نے راوی کے اس پار یعنی راوی اور چناب کے دوآبہ میں گھنے جنگل میں جمع کیا جہاں پر انگریزوں نے گوگیرہ کے پاس اپنی اہم فوجی چھاؤنی قائم کی تھی ۔ گھنے جنگل کے اس اجتماع میں احمد خان کھرل کے علاوہ مراد فتیانہ، صلابت ، ولی داد ،مروانا اور بھری جو علاقہ کے نمائندہ اور سرکردہ لوگ شمار ہوتے تھے جمع ہوئے ۔  

نواب احمد خاں نے پہلے ان لوگوں سے بہادر شاہ کے کی وفاداری کا حلف لیا اور پھر ان کے ذمہ مختلف فرائض لگائے جن میں فرنگیوں کی نقل وحرکت حرکت کی مکمل اطلاعات، فرنگیوں کی ڈاک کے نظام کو درہم برہم کرنا۔ ان مسلمانوں کوجو فرنگیوں کی حمایت کر رہے تھے راہ راست پر لانا ۔ مجاہدین کے لئے سامان رسد خوراک اسلحہ اور روپیہ فراہم کرنا وغیرہ شامل تھا ۔ نواب احمد خان کھرل کو ان نمائندوں نے اپنا سربراہ اور سالار تسلیم کر کے اس کی قیادت میں جہاد کرنے کا فیصلہ کیا اور فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے۔ 6 ستمبر1857 کوعوام کا یہ اہم اجتماع ہوا اور تیسرے دن ہی مجاہدین کی بھرتی شروع کر دی گئی ۔اتفاق سے فرنگیوں کا ہیڈ کوارٹر قصبہ گوگیرہ تھااور مجاہدین نے بھی اس سے تھوڑے فاصلہ پر جنگل میں اپنا مرکز قائم کردیا۔

 انگریزی حکومت کے ملازمین جس شخص کے بارے میں شبہ محسوس کرتے اُسے بلا تامل گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں ڈال دیتے ۔ دیہاتیوں میں فرنگیوں نے خوف و ہراس پیدا کیا ہوا تھا اکثر لوگ جنگلوں میں رہتے ان کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ فرنگیوں سے لڑنے کی طاقت نہ رکھتے تھے اور ان کی ہمنوائی جذبہ ایمان کے منافی سمجھتے تھے ۔ ان کے جذبہ ایمانی کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ فرنگیوں نے جھنگ، کمالیہ اور ساہیوال کے کچھ مجاہدین کو جن کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب تھی پکڑ لیا اور گوگیرہ جیل میں بند کر دیا ان قیدیوں سے توہین آمیز سلوک کیا جاتا رہا۔ جب نواب احمد خان کو کسی ذریعہ سے اطلاع ملی تو وہ جیل میں بلا اجازت داخل ہو گیا اور قیدیوں کو کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں دے آیا ۔ دوسرے دن ڈپٹی کمشنر جھنگ ایچ ایس ہاز کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو اس نے دروغہ جیل کو طلب کرلیا اور اسے سرزنش کی ۔ دروغہ جیل مسلمان تھا اس نے فورا جواب دیا احمد خان کھرل اس علاقہ کا بادشاہ ہے مجھ میں طاقت نہیں کہ اسے روک سکوں ۔ ڈپٹی کمشنر نے دروغہ جیل کو معطل کر دیا اور اس کی جگہ ایک سکھ کو جیل کا انچارج بنا دیا۔ جس نے قیدیوں پر سختی شروع کر دی ۔ ان قیدیوں کا سردار مراد فتیانہ کا حقیقی ماموں دلاورتھا اس نے قیدیوں سے بغاوت کرادی ۔ اس ہنگامہ میں جیل کا تمام نظام درہم برہم ہو گیا سکھ دروغہ نے اسسٹنٹ کمشنر مسٹر برکلے کے مشورہ سے باغی قیدیوں پر فائرنگ کی جس سے واقعہ کی نوعیت مزید سنگین ہو گئی ۔ اگرچہ فرنگیوں کے پاس خاصی قوت تھی اور اسلحہ بارود بھی وافر مقدار میں موجود تھا اس کے باوجود آس پاس کے مسلمانوں نے ہمت کرکے کے رات وقت جیل پر حملہ کر دیا اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھا لیں اور قیدیوں کو آزاد کروالیا۔28 جولائی 1857 کی شام کو جھنگ کے ڈپٹی کمشنر کو مسٹر بر کلے نے حالات سے آگاہ کیا ۔ اس نے نواب احمد خان کھرل کو نظربند کر دیا اورحکم دیا کہ فوجی افسر کی اجازت کے بغیر وہ گوگیرہ سے باہر نہیں جا سکتا ۔

اس حکم کے خلاف پہلی بغاوت مراد فتیانہ نے کی مراد نے گاؤں گاؤں گھوم کر جتھے فراہم کئے اور اسلحہ حاصل کیا اور فرنگیوں کے ٹھکانوں پر شب خون مارنے شروع کر دیئے۔

مراد فتیانہ نے شورکوٹ سے لے کر کمالیہ تک چاروں طرف مجاہدین لگا دیئے جو ہر لمحہ کی خبریں اسے مہیا کرتے اور فرنگیوں ڈاک کے تھیلے لوٹ لوٹ کر اس کے پاس پہنچاتے تھے۔ بغاوت جب پوری طاقت سے پھیل گئی تو فوجی حکام نے ایک گہری چال چلی اور نواب احمد خان کھرل کو رہا کردیا. تاکہ جو مسلمان اس کی نظر بندی کی وجہ سے برانگیختہ ہو چکے ہیں ان کے جذبات ٹھنڈے ہو جائیں مگر مشہور یہ کیا کہ ان کے خلاف جیل میں ہنگامہ کرانے کا پورا ثبوت مہیا نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے احمد خان کھرل کو رہا کردیا گیا ہے ۔

نواب احمد خان کھرل نے رہائی کے بعد مختلف قبیلوں کے امراء کو ساتھ ملا کے دہلی کی طرف مجاہدین بھجوانے کاسلسلہ شروع کیا۔ یہ مجاہد ملتان اور بہاولپورعبور کرکے دہلی جانے لگے۔ فرنگیوں کا متعدد مرتبہ ان سے مقابلہ ہوا مگر مجاہدین جنگلوں اورصحراوں میں چھپتے چھپاتے منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ ایک طرف یہ صورت حال یہ تھی دوسری طرف احمد خان نے گوگیرہ کی چھاؤنی پر حملہ کرنے کا اعلان کر دیا اور بھاری جمیعت لے کر گوگیرہ کے قریب جنگل میں قریباً چار سو گز کے فاصلہ پر اپنے مورچے قائم کرلئے فرنگیوں نے اس متوقع حملہ کے پیش نظر لاہور اور ملتان سے مزید فوجی  دستے منگوا لئے چنانچہ دونوں کے درمیان زبردست مقابلہ شروع ہوا۔ مجاہدین قیادت مراد فتیانہ کر رہا تھا اور فرنگیوں کا کمانڈر بر کلے تھا۔ مجاہدین کے پاس چند بندوقیں تھیں اور باقی لاٹھیاں نیزے برچھیاں تلواریں وغیرہ تھیں جبکہ فرنگی توپوں اور دستی بموں سے لیس تھے۔ برکلے نے مجاہدین کی پیش قدمی روکنے کیلئے توپوں کے منہ کھول دیئے اور دستی بم استعمال کئے۔ مجاہدین مخالف کی قوت کا جواب نہ دے سکتے تھے انہوں نے یہ چال چلی کہ آہستہ آہستہ گھنے جنگل کی طرف بڑھنے گئے۔ جب فرنگی گھنے جنگل میں پہنچ گئے تو مجاہدین نے جو بیشتر ادھر اُدھر چھپے ہوئے تھے ان پر چاروں طرف سے حملہ کر دیا اور دستی بموں و توپوں کے باوجود مجاہدین کا مقابلہ کرتے ہوئے انگریز کے سینکڑوں سپاہیوں ہلاک و زخمی ہوگئے۔ فرنگی بدحواس ہو کر بھاگے اور بہت سا اسلحہ مجاہدین کے قبضہ میں آگیا۔ مجاہدین جنگل عبور کر کے موضع فتح پور میں روپوش ہو گئے مگر سرفراز خان کھرل نے ان کی ڈپٹی کمشنر کے پاس مجزی کر دی اور اس کے صلہ میں جا گیر حاصل کی ۔

21ستمبر 1857 کوموضع فتح پور کے قریب ساحل راوی پرزبردست مقابلہ ہوا جس میں انگریزی فوج نے شکست کھائی اور پسپا ہو کر لوٹ آئی۔ مجاہدین مطمئن تھے کہ اب یہ علاقہ فرنگیوں سے خالی ہو جائے گا لیکن مجاہدین میں سے ایک غدار بابا کھیم سنگھ بیدی نے مخبری کر کے بر کلے کو جنگل عبور کر نے اور مجاہدین پر رات کے وقت اچانک حملہ کرنے کا راستہ بتایا دوسرے دن یعنی 22 ستمبر 1857 کو برکلے نے اچانک حملہ کر کے مجاہدین کو گھیرے میں لے لیا ۔ نواب احمد خاں کھرل اس حملہ میں شہید ہو گیا جس کا مجاہدین کو سخت رنج پہنچا کچھ مجاہدین پسپا ہو کر گرفتار ہو گئے کچھ بھاگ نکلے ۔ مراد فتیانہ نے اپنے سردار کے خون کا بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا اورجنگل میں چند ساتھیوں سمیت چھپ گیا۔

 برکلے نے نواب احمد خان کی شہادت پر جشن منایا لاہور اور ملتان تک خصوصی قاصد دوڑائے کہ برطانوی حکومت کا باغی قتل ہو چکا ہے اب اس علاقہ میں بغاوت ختم ہو جائے گی اور جلد ہی تمام علاقہ زیر ہو جائے گا۔ برکلے فتح و خوشی کے شادیانے بجاتا ہوں جنگل عبور کر کے گوگیرہ کی طرف آرہاتھاجبکہ  مراد فتیانہ عہد کر لیا کہ وہ اس ظالم انگریزکو قتل کرے گا کیونکہ اس نے نواب احمد خان کا خون کیا تھا۔

مراد صرف تیس جانبازوں کی ایک جماعت کے ذریعے برکلے کا تعاقب

کرتا رہا اور تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر جنگل میں اس کے پیچھے چلتا رہا ۔ برکلے کی فوج نے موضع کوڑے شاہ اور دریائے راوی کے کنارے کے درمیان پہنچ کر قیام کیا وہ مطمئین تھا کہ اب کسی کو ادھر آنے کی جرات نہیں ہوگی لیکن چند ہی لمحوں بعد بڑے بڑے سرکنڈوں سے باہر نکل کر مراد فتیانہ نے برکلے کو للکارا او فرنگی میں موت کی طرح تیرے پیچھے پیچھے آرہا ہوں خبردار بندوق کی طرف ہاتھ اٹھانا اس جنگل کے ہر سرکنڈے کے پیچھے مجاہدین مسلح بیٹھے ہیں اور وہ تمہارے سپاہیوں کی تکہ بوٹی کر دیں گے۔ مجاہدین نواب احمد خان کھوں کے خون کا بدلہ لینے آئے ہیں۔ برکلے اس اچانک حملہ سے بدحواس ہو گیا اس نے اپنی فوج کو فائر کھولنے کا حکم دیا مگر اس سے قبل کو اس کی بٹالین اپنا اسلحہ سنبھالتی ، مجاہدین نے آگے بڑھ کر ان میں سے بیشتر کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا ۔ اب بر کلے تنہا تھا اس کے پاس دستی بم تھے جو اس نے مجاہدین کی طرف پھینکے مگر مجاہدین نے اس کا گھیرا تنگ کر دیا ۔ برکلے نے اپنی بندوق سے فائرنگ شروع کردی لیکن مراد نے آگے بڑھ کر زور سے اس کے سینہ میں نیزہ پیوست کر دیا کہ وہ ایک چیخ کے ساتھ دھڑام سے زمین پر گرا مراد کے ساتھی سوجے نے گرے ہوئے برکلے پر لاٹھیاں اس طرح برسائیں کہ اس کا سر پھٹ کر کھوپڑی باہر نکل آئی ۔ مجاہدین نے برکلے کی لاش وہیں جنگل میں پھینک دی اور روپوش ہو گئے۔

 برکلےکی موت انگریزی حکومت کے لئے ایسا واقعہ تھا جسے وہ کبھی نہ بھول سکتی تھی۔ انگریزی فوج نے  روای کے  کنارے سے لیکر بہاولپور تک تباہی مچادی ۔ جھنگ اور ساہیوال کے سینکڑوں دیہات نذر آتش کر دیئے گئے۔مراد فتیانہ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے اس کی اراضی بحق سرکار ضبط کرلی گئی اسکی جواں اولاد کو جیلوں میں اذیت دی گئی لیکن اس کے بچوں نے ظلم و تشدد کے  باوجود اپنے باپ کا سراغ نہ بتایا۔ مراد فتیانہ جنگلوں میں کچھ عرصہ روپوش رہنے کے بعد دہلی چلا گیا لیکن مغل سلطنت کا آفتاب غروب ہو چکا تھا۔ مراد فتیانہ کی تلاش میں برطانوی حکومت نے انتہائی کوشش کی لیکن وہ صوبہ سرحد(کے پی کے) کے ذریعہ افغانستان چلا گیا بعد میں اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا ۔اس کے دو بچوں بہن بھائیوں کو قید خانہ میں ڈال دیا گیا ۔ اس کی لڑکی حاملہ تھی ، جیل میں اس کا بچہ پیدا ہوا اور وہ سرکاری نگرانی میں پرورش پاتا رہا ۔ مراد کا لڑکا اور لڑکی جیل میں ہی موت کا شکار ہو گئے البتہ اس کا نواسہ جب جواں ہو گیا تو اسے مراد کی کچھ اراضی دے دی گئی۔مراد کے ہاتھوں برکلے کا قتل اتنا بڑا واقعہ تھا کہ پوری حکومت چکرا گئی اورمراد فتیانہ زندہ جاوید ہو گیا ۔ برکلے کے قتل پر لوگوں نے ڈھولے کہے وہ آج بھی فضا میں گونج رہے ہیں ۔ راوی اور چناب کے دوآبہ کے کسان جب پو پھٹے زمین میں ہی جوڑتے اور بیلوں کی جوڑی ہانکتے ہیں تو از خود ان کی زبان پر مراد فتیانہ کی بہادری کے ڈھولے تھرک اٹھتے ۔ انگریزحکومت نے ان زبان زد عام ڈھولوں پر پابندی لگادی  ۔ جس شخص کے بارے میں شبہ ہو جاتا کہ اس نے اس قسم کے ڈھولے گا ئے ہیں ۔ اسے پکڑ کر جیل بھیج دیا جاتا ۔ اتنی سختی کے باوجود یہ لوک گیت عوام کے دلوں میں پلتے اور پروان چڑھتے رہے

جوان گھبرو ترنگ میں آکر قانون کی پروا کئے بغیر ڈھولے الاپتے اور مجلسوں کا خون گرم رکھتے ہیں۔

ساوی اکھیا

توں کر بسم اللہ دھر پیر رکابے میں جاساں مار اڈاری

 پھر سواد مینھ آیا نے ساوی جالتھی وچ جھانپڑے مار بھنوالی

 ترجمہ – مراد کی گھوڑی ساوی نے اپنے سوار سے کہا تو خدا کا نام لے کر رکاب میں پاؤں رکھ ۔ میں اڑ کر سوا پہر دن جھانپڑے چکر مارتی ہوئی پہنچ جاؤنگی

 انگریز برکلے تے مراد فتیانہ وچ در میدان دے گئے رل کھڈاری

انگریزدی سانگ کجھ چھلانگے تے مراد دی سانگ کجھ بھاری

 ترجمہ – برکلے انگریز اور مراد فتیانہ دونوں میدان کے کھلاڑی تھے ۔ آپس میں لڑےانگریز کا نیزہ عمدہ تھا مگر مراد کا نیزہ کاری نکلا۔

اسانوں لکھیا ڈھہیسی سی پر بنگلے گوگیرے توں نہ لاہسی کچہری

 راوی تے ہن راٹھ و سن جنہاں چٹے دینھ لٹیا گھر سرکاری

ترجمہ : ہمیں تو اپنا نصیب ملیگا مگر تو بھی آئندہ بنگا بنگلہ گوگیرہ میں اپنا فوجی دربار نہیں لگا سکے گا ۔ راوی کا علاقہ بہادروں کا مسکن ہے جنہوں نےدن دیہاڑے انگریزوں کا خانہ برباد کیا ۔ یہ آخری ڈھول کتنا اثر انگیز ہے اس میں بھر لور جذبات ملتے ہیں کہ ہمیں تو جو تقدیر سے ملے گا اس پر شاکر ہوں گے مگر تم اب کچہری لگا کر حکم نہیں دوگے۔

مراد فتیانہ نے برکلے کو قتل کر کے تاریخ کا رخ موڑ دیا،مراد فتیانہ نے نہ صرف رائے احمد خان کھرل کا بدلہ لے لیا بلکہ انگریزکو وہ کاری ضرب لگائی کہ  برسوں تک اس کے زخم ہرے رہے کیونکہ مراد فتیانہ زندہ بھی ان کے ہاتھ نہ آسکا۔ افسوس اس بات ہے کہ تاریخ دانوں مراد فتیانہ کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔

(اس تحریر کے لئے جھنگ کی لوک کہانیاں اورتاریخ جھنگ بلال زبیری سے مدد لی گئی ہے)

فوزیہ ملک

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos