728 x 90

سائبر جرائم کے خلاف اقوام متحدہ کا تاریخی معاہدہ،توقعات اور خدشات

سائبر جرائم کے خلاف اقوام متحدہ کا تاریخی معاہدہ،توقعات اور خدشات

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منگل کے روز سائبر جرائم کے خلاف ایک اہم معاہدہ منظور کیا، جو انٹرنیٹ کے حوالے سے حکومتی نگرانی کے نظام میں بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنے گا۔ یہ معاہدہ پانچ سالہ مذاکرات کے بعد اتفاق رائے سے منظور کیا گیا، اور اس پر دستخط کی باقاعدہ تقریب

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منگل کے روز سائبر جرائم کے خلاف ایک اہم معاہدہ منظور کیا، جو انٹرنیٹ کے حوالے سے حکومتی نگرانی کے نظام میں بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنے گا۔

یہ معاہدہ پانچ سالہ مذاکرات کے بعد اتفاق رائے سے منظور کیا گیا، اور اس پر دستخط کی باقاعدہ تقریب 2025 میں ہنوئی میں منعقد ہوگی۔ معاہدہ 90 دن بعد نافذ ہوگا جب اسے رکن ممالک کی توثیق حاصل ہوگی۔

یہ معاہدہ اس بات کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے کہ مختلف ممالک کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں سائبر جرائم کی تحقیقات میں کس طرح تعاون کریں گی۔ اس کا مقصد سائبر مجرموں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنا اور ترقی پذیر ممالک کو اپنے شہریوں کو ڈیجیٹل جرائم سے بہتر طریقے سے محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک نے پانچ سالہ مذاکرات کے بعد سائبر جرائم کے خلاف ایک تاریخی کنونشن کو متفقہ طور پر منظور کر لیا، جو اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ ہے۔

یہ معاہدہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے کیوں اہم ہے؟:

ایک بڑھتے ہوئے خطرے کے لیے مؤثر ہتھیار

ورلڈ بینک کے مطابق، 2023 میں دنیا کی 67.4 فیصد آبادی انٹرنیٹ استعمال کر رہی تھی۔ لوگ رابطہ، خریداری، تحقیق، اور اختراعات کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں۔

تاہم، یہ کنیکٹیویٹی دنیا کی دو تہائی آبادی کو سائبر جرائم کے خطرات سے دوچار کر دیتی ہے۔ جو لوگ ابھی ڈیجیٹل دنیا سے جڑ رہے ہیں، وہ ان خطرات کے خلاف مزید غیر محفوظ ہیں۔

سائبر مجرم مالویئر، رینسم ویئر اور ہیکنگ کے ذریعے رقم، ڈیٹا اور دیگر قیمتی معلومات چوری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کو منشیات کی اسمگلنگ، اسلحہ کی غیر قانونی نقل و حمل، انسانی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، اور دھوکہ دہی جیسے جرائم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا جیسے خطوں کو منظم سائبر جرائم کا مرکز کہا جاتا ہے، جہاں یہ کارروائیاں بہت پیچیدہ اور مربوط ہوتی ہیں۔ یہ خطرات معیشتوں کو کمزور کر رہے ہیں، اہم انفراسٹرکچر کو متاثر کر رہے ہیں، اور ڈیجیٹل نظام پر اعتماد کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

سائبر جرائم کے خلاف اس عالمی کنونشن سے پہلے کوئی معاہدہ موجود نہیں تھا۔ نیا کنونشن سائبر جرائم کے خلاف تیز، مربوط اور مؤثر کارروائیاں ممکن بنائے گا، جس سے ڈیجیٹل اور حقیقی دنیا کو محفوظ بنایا جا سکے گا۔

چوبیس گھنٹے تعاون

بین الاقوامی جرائم، چاہے وہ آن لائن ہوں یا آف لائن، کی تحقیقات میں الیکٹرانک شواہد بہت اہم ہوتے ہیں۔

ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ڈیٹا، نیٹ ورکس، اور سروس فراہم کنندگان غیر مرکزی ہیں، اور شواہد اکثر مختلف علاقوں میں بکھرے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ الیکٹرانک شواہد کو جلدی حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ انہیں مٹانے یا تبدیل ہونے سے بچایا جا سکے۔

یہ کنونشن شواہد تک رسائی اور تبادلے کے لیے فریم ورک فراہم کرتا ہے، جس سے تحقیقات اور قانونی کارروائیوں میں سہولت ہو گی۔

ممالک کو بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک 24/7 نیٹ ورک کا فائدہ ہوگا، جس میں تحقیقات، مقدمات، جرائم سے حاصل شدہ رقم کی بازیابی، قانونی معاونت، اور حوالگی کے معاملات شامل ہیں۔

بچوں کا تحفظ

یہ معاہدہ ممالک کے درمیان سائبر جرائم کی تحقیقات میں تعاون کو مضبوط بنانے کا فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے، یہ ڈیجیٹل جرائم سے نمٹنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہوگا۔

آن لائن پلیٹ فارمز جیسے سوشل میڈیا، چیٹ ایپس اور گیمز شکاریوں کو گمنامی کا موقع دیتے ہیں، جس کا وہ بچوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

یہ کنونشن بچوں کے خلاف آئی سی ٹی کے ذریعے جنسی تشدد کے مسئلے کو حل کرنے والا پہلا عالمی معاہدہ ہے۔

ان جرائم کو مجرمانہ قرار دے کر، یہ معاہدہ حکومتوں کو بچوں کا تحفظ کرنے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مضبوط آلات فراہم کرتا ہے۔

متاثرین کی ضروریات کا خیال

معاہدے کے تحت متاثرین کو معاونت فراہم کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے، جو کہ ڈیجیٹل جرائم کے متاثرین کے لیے امید کی کرن ہے۔

سائبر جرائم دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، اور ہر متاثرہ شخص مناسب مدد کا مستحق ہے۔

یہ کنونشن ریاستوں کو متاثرین کو بحالی کی خدمات، معاوضہ، ازالہ، اور غیر قانونی مواد کو ہٹانے کی سہولت فراہم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

یہ امداد ہر ملک کے مقامی قوانین کے مطابق فراہم کی جائے گی۔

بہتری کے لیے پیشگی اقدامات

سائبر جرائم کے واقع ہونے کے بعد اس پر کارروائی کرنا کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے پیشگی اقدامات اور مضبوط سرمایہ کاری ضروری ہے، جن پر یہ کنونشن زور دیتا ہے۔

یہ معاہدہ ریاستوں پر زور دیتا ہے کہ وہ جامع حکمت عملی اپنائیں، جن میں عوامی اور نجی شعبے کی تربیت، مجرموں کی بحالی اور دوبارہ شمولیت کے پروگرام، اور متاثرین کی معاونت شامل ہیں۔

ان اقدامات کے ذریعے، کنونشن خطرات کو کم کرنے اور خطرات کو مؤثر طریقے سے قابو پانے کا ہدف رکھتا ہے، تاکہ سب کے لیے ایک محفوظ ڈیجیٹل ماحول قائم کیا جا سکے۔

انسانی حقوق اور پرائیویسی کے خدشات

انسانی حقوق کے کارکن، سائبر سیکیورٹی ماہرین، اور دنیا کی کچھ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اس معاہدے کی مخالفت کی ہے، یہ خبردار کرتے ہوئے کہ یہ معاہدہ آمریت پسند حکومتوں کے لیے ایک ہتھیار بن سکتا ہے اور پرائیویسی کی خلاف ورزیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فلیمنگ یانگ نے کہا:
“ہم ایک ایسے ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں جہاں معلومات اور رابطے کی ٹیکنالوجیز معاشروں کی ترقی کے لیے بے پناہ مواقع فراہم کرتی ہیں، لیکن ساتھ ہی سائبر جرائم کے خطرات میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ اس معاہدے کی منظوری کے بعد رکن ممالک کے پاس سائبر جرائم کی روک تھام اور ان سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کرنے کے اوزار موجود ہیں۔

معاشی نقصان اور سائبر جرائم کے اثرات

اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غادہ والی نے کہا کہ یہ گزشتہ 20 سالوں میں پہلا بین الاقوامی معاہدہ ہے اور یہ آن لائن بچوں کے جنسی استحصال، جدید آن لائن فراڈ، اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم سے نمٹنے کے لیے انتہائی اہم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سائبر جرائم ہر سال دنیا بھر کی معیشتوں سے “کھربوں” کا نقصان پہنچا رہے ہیں، اور یو این او ڈی سی 193 رکن ممالک کو اس معاہدے کی توثیق اور عمل درآمد کے لیے ضروری مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

مخالفت اور خدشات

روس کی طرف سے پیش کیے گئے اس معاہدے کی ابتدائی مخالفت کے بعد، امریکہ اور برطانیہ نے نومبر میں اس کی حمایت کا اعلان کیا۔ تاہم، کئی ممالک نے خدشات کا اظہار کیا کہ اس معاہدے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، غیر قانونی نگرانی، اور پرائیویسی کے استحصال کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ معاہدے کی دفعات کو سیاسی مخالفین کو دبانے، آزادیٔ اظہار کو محدود کرنے، اور اختلافات کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں بھی کئی حکومتیں ایسے قوانین کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر چکی ہیں۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک کے اندر سائبر جرائم کے حوالے سے موجودہ قوانین کمزور ہیں، اور یہ معاہدہ ان کی کمزوریوں کو مزید اجاگر کر سکتا ہے۔

مختلف ممالک کے قانونی نظام اور ثقافتی پس منظر کی وجہ سے اس معاہدے کا یکساں نفاذ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

مستقبل کی توقعات

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفنی ٹرمبلے نے کہا کہ یہ معاہدہ سائبر جرائم کی روک تھام اور متاثرین کے تحفظ کے لیے ایک بے مثال پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، جبکہ آن لائن انسانی حقوق کے تحفظ کو بھی یقینی بناتا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے تمام ممالک سے اس معاہدے میں شامل ہونے اور متعلقہ شراکت داروں کے تعاون سے اس پر عمل درآمد کی اپیل کی ہے۔

یہ معاہدہ یقینی طور پر ڈیجیٹل دنیا میں سائبر جرائم کے بڑھتے ہوئے خطرات کو روکنے کے لیے ایک امید افزا قدم ہے، لیکن اس کے ممکنہ منفی پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا خصوسی طور پر ترقی پذیر ممالک اور وہ ممالک جہاں پر کمزور سیاسی حکومتیں موجود ہیں۔یہ اقدامات معاہدے کو نہ صرف کامیاب بلکہ منصفانہ بھی بنا سکتے ہیں، جو حقیقی معنوں میں عالمی ڈیجیٹل تحفظ کو یقینی بنائے گا۔

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos