728 x 90

پاکستان میں بچوں کے حقوق کی سنگین صورتحال: جنوبی پنجاب کے بچوں کا المیہ

پاکستان میں بچوں کے حقوق کی سنگین صورتحال: جنوبی پنجاب کے بچوں کا المیہ

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی حالیہ رپورٹ جس نے 2024 کو دنیا بھر کے بچوں کے لیے بدترین سال قرار دیا ہے، نے بچوں کے حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر ایک سنگین روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 473 ملین بچے اس وقت جنگ زدہ علاقوں میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں انہیں

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی حالیہ رپورٹ جس نے 2024 کو دنیا بھر کے بچوں کے لیے بدترین سال قرار دیا ہے، نے بچوں کے حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر ایک سنگین روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 473 ملین بچے اس وقت جنگ زدہ علاقوں میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں انہیں تشدد اور عدم تحفظ کے سائے میں رہنا پڑ رہا ہے۔ یہ تلخ حقیقت پاکستان، خاص طور پر جنوبی پنجاب کے بچوں کے لیے بہت زیادہ متعلقہ ہے، جہاں بچوں کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے جو فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔

جنوبی پنجاب کے بچے: ایک نظرانداز شدہ طبقہ
جنوبی پنجاب، جو سماجی و اقتصادی عدم مساوات کے لیے مشہور ہے، پاکستان میں بچوں کی کمزوریوں کا آئینہ دار ہے۔ یہاں غربت، ناکافی تعلیم، اور صحت کی محدود سہولیات بچوں کی حالت زار کو مزید خراب کرتی ہیں۔ اس علاقے میں چائلڈ لیبر، کم عمری کی شادیوں، اور اسکول چھوڑنے کی شرح تشویشناک حد تک زیادہ ہے، جو نظامی نظراندازی اور ثقافتی رویوں کا نتیجہ ہے۔

تعلیم کے مسائل
جنوبی پنجاب میں تعلیمی شعبہ بچوں کے حقوق کی سنگین صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ دیہی علاقوں کے اسکول بنیادی ڈھانچے اور وسائل سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ لڑکیوں کو خاص طور پر ثقافتی تعصبات اور تحفظ کے خدشات کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

صحت اور غذائیت کا بحران
یونیسیف کی رپورٹ میں جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کی صحت پر تباہ کن اثرات، بشمول غذائی قلت اور حفاظتی ٹیکوں کی کمی، کو اجاگر کیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب کے بچوں کو بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس علاقے میں غذائی قلت کی شرح ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، اور صحت کی سہولیات اکثر دستیاب نہیں ہوتیں یا ناقص ہوتی ہیں۔

تنازعات اور بے گھری: ایک دوہرا بوجھ
اگرچہ جنوبی پنجاب براہ راست مسلح تنازعات سے محفوظ رہا ہے، لیکن قومی اور علاقائی بحرانوں کے اثرات اور ماحولیاتی آفات جیسے سیلاب نے بڑے پیمانے پر بے گھری کا سبب بنی ہے۔ بے گھر ہونے والے خاندانوں کے بچے اکثر اپنے گھر، تعلیم، اور حمایت کے نظام سے محروم ہو جاتے ہیں، جس سے ان کے استحصال، بدسلوکی، اور نظراندازی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

فوری اقدامات کی ضرورت
یونیسیف کی رپورٹ اس بات کی ایک سخت یاد دہانی ہے کہ عالمی برادری، بشمول پاکستان، کو بچوں کے حقوق کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ جنوبی پنجاب میں اس کا مطلب ہے:

تعلیم میں سرمایہ کاری: تمام بچوں، خاص طور پر لڑکیوں، کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی کمی اور سماجی رکاوٹوں کو دور کرنا۔
صحت کی سہولیات کی مضبوطی: صحت کی خدمات اور غذائی مدد تک رسائی کو بڑھانا تاکہ غذائی قلت اور قابل علاج بیماریوں کا خاتمہ ہو۔
بے گھر بچوں کا تحفظ: بے گھر خاندانوں کے لیے جامع معاون نظام قائم کرنا، جس میں محفوظ رہائش، تعلیمی تسلسل، اور بچوں کے لیے نفسیاتی مدد شامل ہو۔
چائلڈ لیبر اور استحصال کے خاتمے کی کوشش: بچوں کے تحفظ کے قوانین کو نافذ کرنا اور خاندانوں کے لیے متبادل معاشی مواقع فراہم کرنا۔

چائلڈ رائٹس موومنٹ جنوبی پنجاب کے کوآرڈینیٹر کے طور پر، میں پالیسی سازوں، سول سوسائٹی، اور بین الاقوامی تنظیموں پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس سنگین صورتحال کو تسلیم کریں اور فیصلہ کن اقدامات کریں۔ بچے ہمارے ملک کا مستقبل ہیں، اور ان کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

“ہر بچہ خوف، بھوک، اور محرومی سے آزاد بچپن کا حقدار ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ الفاظ کو عمل میں بدل دیا جائے۔

کلیم اللہ، چائلڈ رائٹس موومنٹ جنوبی پنجاب میں کوآرڈینیٹرہیں ،سماجی کارکن ہیں اور معاشرتی مسائل پر لکھتے ہیں

یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے اور تحقیق پر مبنی ہے ادارہ دی جھنگ ٹائمز کا مصنف کی تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos