ہر سال 15 اکتوبر کو دنیا بھر میں دیہی خواتین کے عالمی دن منایا جاتا ہے پہلی بار جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر 2007 میں اس حوالے سے قراردار لائی گئی جس کے بعد ہر سال 15 اکتوبر کو یہ دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد دیہی خواتین، بشمول مقامی خواتین، کے زراعت اور
ہر سال 15 اکتوبر کو دنیا بھر میں دیہی خواتین کے عالمی دن منایا جاتا ہے پہلی بار جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر 2007 میں اس حوالے سے قراردار لائی گئی جس کے بعد ہر سال 15 اکتوبر کو یہ دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد دیہی خواتین، بشمول مقامی خواتین، کے زراعت اور دیہی ترقی کو فروغ دینے، غذائی تحفظ کو بہتر بنانے اور دیہی غربت کے خاتمے میں اہم کردار اور تعاون کو تسلیم کرنا ہے۔ اس سال اقوام متحدہ کی جانب سے دیہی خواتین کے اس عالمی دن کا تھیم ہےکہ "دیہی خواتین ہمارے اجتماعی مستقبل کے لیے فطرت کو برقرار رکھتی ہیں: آب و ہوا میں لچک پیدا کرنا، حیاتیاتی تنوع کا تحفظ، اور صنفی مساوات اور خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے زمین کی دیکھ بھال۔”
دیہی خواتین ماحولیاتی اور حیاتیاتی تنوع کے نگران کے طور پر کام کرتے ہوئے دنیا کی نصف خوراک کی پیداوار کی ذمہ دار ہیں۔ کسانوں کے طور پر، خواتین نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کا طریقہ سیکھا ہے، مثال کے طور پر، فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں پائیدار زراعت کی مشق کرکے، خشک سالی سے بچنے والے بیجوں پر سوئچ کرکے، کم اثر یا نامیاتی مٹی کے انتظام کی تکنیکوں کو استعمال کرکے، یا کمیونٹی کی بنیاد پر معروف جنگلات کی بحالی اور بحالی کی کوششیں- مقامی خواتین انمول آبائی علم اور طریقوں کو لا کر ماحولیاتی تحفظ میں سب سے آگے رہی ہیں اور دیہی خواتین عالمی اور قومی آب و ہوا کی تحریکوں کی قیادت کر رہی ہیں جنہوں نےموجودہ سابقہ اور آنے والی نسلوں کی خاطر اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔
موسمیاتی بحران کے فرنٹ لائنز پر کام کرتےہوئے خواتین تبدیلی کے لئے پر امید ہیں کہ گلوبل وارمنگ کی وجوہات کو کم کرنے اور زمین پر اس کے اثرات کو اپنانے کے طریقے تلاش کرنے میں ان کی مدد کی جا سکے۔تاہم رپورٹس ثابت کرتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا خواتین پر زیادہ واضح اثر پڑتا ہے بنیادی طور پر مقامی اور کسان خواتین، جن کا زرعی انحصار، حالات زندگی، اور پسماندگی انہیں آب و ہوا، تنوع کے نقصان، اور آلودگی کی وجہ سے بہت زیادہ تبدیلیوں سے دوچار کرتی ہے۔
اپنی شراکتوں کے باوجود، دیہی خواتین اکثر امتیازی سماجی اصولوں اور قوانین کے تابع ہوتی ہیں جو ان کی گھروں اور کمیونٹیوں میں فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت کو محدود کرتے ہیں۔ بہت سی دیہی خواتین بنیادی طور پر اپنی زرعی کام کے علاوہ غیر معاوضہ محنت کرتی ہیں، جیسے کہ گھریلو کام اور دیکھ بھال وغیرہ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبیلوایچ او) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دیہی خواتین عالمی آبادی کا تقریباً 22 فیصد حصہ ہیں ۔وہ اپنی کمیونٹیز کی صحت اور بہبود میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔
دنیا بھر میں دیہی خواتین کو غربت کی زیادہ شرح جیسے چیلنجز کا سامنا ہے (کیونکہ عالمی سطح پر دیہی علاقوں میں انتہائی اور کثیر جہتی غربت زیادہ ہوتی ہے) اور تعلیم، صحت اور دیگر سماجی خدمات اور روزگار کے مواقع تک غیر مساوی رسائی ہوتی ہے۔ دیہی خواتین صنفی عدم مساوات کا بھی شکار ہو سکتی ہیں، جو امتیازی سماجی اداروں، رسمی اور غیر رسمی قوانین، سماجی اصولوں اور روایات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دیہی مقامی خواتین اور لڑکیوں کے لیے چیلنجز اور بھی زیادہ ہو سکتے ہیں۔ان چیلنجز کے باوجود، دیہی خواتین اپنی کمیونٹیز کی صحت اور بہبود کو بہتر بنانے میں ایک محرک قوت ہیں۔
دیہی خواتین کمیونٹیز میں خوراک کی پیداوار، تحفظ اور غذائیت کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، جو دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں ضروری ہے۔ زرعی نظام خواتین کے لیے ایک اہم شعبہ ہے۔ عالمی سطح پر، 2019 تک کام کرنے والی خواتین میں سے 36 فیصد زرعی نظام میں کام کر رہی ہیں۔
دیہی خواتین حیاتیاتی تنوع کو محفوظ رکھنے اور اسے فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ قدرتی وسائل اور روایتی علم کی محافظ ہیں۔
دیہی خواتین دیہی صحت اور نگہداشت کے نظام میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ عالمی سطح پر، خواتین صحت کی دیکھ بھال کرنے والی افرادی قوت کا 67 فیصد حصہ ہیں اور کمیونٹی کیئر ورکرز کا تقریباً 70 فیصد ہیں۔ کمیونٹی کیئر ورکرز اکثر وہ واحد صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ورکرز ہوتے ہیں جن تک دیہی لوگوں کی رسائی ہوتی ہے۔ بہت سی کمیونٹی کیئر ورکرز کو مناسب اجرت نہیں دی جاتی۔ دیہی خواتین غیر ادا شدہ نگہداشت کا کام بھی کرتی ہیں، جیسے بچوں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنا۔
دیہی خواتین دیگر شعبوں میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں جو صحت کے لیے ضروری ہیں، جیسے پانی اور صفائی ستھرائی کی خدمات، زونوسس کنٹرول، اور پیشہ ورانہ صحت وغیرہ۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی دیہی خواتین پر اثرات
دیہی کمیونٹیز دنیا بھر میں موسمیاتی بحران سے پیدا ہونے والے بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا بھی کر رہی ہیں۔ جیسے جیسے آفات زیادہ بار بار اور شدید ہوتی جا رہی ہیں، اور ماحولیاتی حالات سخت ہو رہے ہیں، ان کمیونٹیز پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم، ان اثرات کا سب سے زیادہ بوجھ خواتین اٹھا رہی ہیں، جنہیں اہم مالی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر (ایف اےاو) کی مارچ 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق
صنفی عدم مساوات خواتین کی موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہر سال، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں خواتین کسان اور خواتین کی زیر قیادت گھرانے موسمیاتی جھٹکوں جیسے گرمی کی شدت یا سیلاب کی وجہ سے بہت زیادہ نقصانات کا سامنا کرتے ہیں، جو کہ مردوں کے زیر قیادت گھرانوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر، گرمی کی شدت کی وجہ سے، خواتین کی زیر قیادت گھرانوں کی سالانہ آمدنی میں مردوں کے زیر قیادت گھرانوں کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ اور یہ 37 بلین ڈالر سالانہ بنتا ہے، جو کہ بہت بڑی رقم ہے۔ سیلاب بھی خواتین کی زیر قیادت گھرانوں کی آمدنی میں 3 فیصد کمی کا باعث بنتا ہے، جو مردوں کے زیر قیادت گھرانوں کے مقابلے میں 16 بلین ڈالر سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔
جہاں پر بہت سے گھرانے پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت کچھ کھو رہے ہیں وہاں پر وہ گھرانے جو خواتین کے زیر انتظام ہیں یا ایسی زمینوں پر ہیں جو خواتین چلاتی ہیں، نقصانات بہت زیادہ ہیں۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی ایک اور ڈگری سیلسیس بڑھ جاتی ہے تو خواتین کی زیر قیادت گھرانوں کی آمدنی مردوں کے زیر قیادت گھرانوں کے مقابلے میں 34 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے، خاص طور پر ان خاندانوں کے لیے جو پہلے ہی غربت سے متاثر ہیں اور ہر روز اپنے خاندان کے لیے کافی اور صحت مند خوراک حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس کے لئے 24 کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے ڈیٹا کو استعمال کیا، جو پانچ خطوں پر محیط تھا، اور 70 سال کے روزانہ موسمیاتی ڈیٹا کو 100,000 (ایک لاکھ) سے زیادہ گھرانوں کی آمدنی سے ملا دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس تقریباً ایک ارب لوگوں کا ڈیٹا موجود تھا۔ ہم اس بات کا اندازہ لگانے کے قابل تھے کہ خواتین کی زیر قیادت گھرانوں کے لیے نقصانات کتنے زیادہ تھے۔
مثال کے طور پر، ایک عورت کے پاس اپنے کھیت میں آبپاشی کا نظام نہیں ہو تا خصوصی طور پر ان ممالک میں جہاں زراعت میں آبپاشی کا زیادہ استعمال ہوتا ہے، وہاں خواتین کے لیے اس تک رسائی بہت کم ہوتی ہے۔
تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک خاتون کسان جس کے پاس اپنی زمین پر پانی نہیں ہے، اور شاید اسے نئے بیج بھی نہیں ملے، جو خشک سالی کے نقصانات کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔ اس کے نتیجے میں، وہ مرد کسان کے مقابلے میں روزانہ ایک گھنٹہ زیادہ محنت کر رہی ہے، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم ایسے اثاثوں اور ٹیکنالوجیز تک رسائی کے بغیر، وہ بدلتے ہوئے موسم سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی خواتین سے درکار کام کے اوقات کو بھی بڑھا رہی ہے اور چونکہ تقریباً تمام ممالک میں خواتین پہلے ہی دیکھ بھال کی ذمہ داریوں کا زیادہ بوجھ اٹھاتی ہیں اس سے صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے۔ اوسطاً خواتین روزانہ 4 گھنٹے بغیر معاوضہ گھریلو اور نگہداشت کے کاموں میں صرف کرتی ہیں جبکہ مرد اس میں 2 گھنٹے سے بھی کم وقت دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ان کاموں جیسے پانی یا لکڑی جمع کرنے یا گھر کو چلانے یا زرعی سرگرمی کو جاری رکھنے کے لیے ضروری دیگر کاموں کے بوجھ کو بڑھا سکتی ہے۔
بہت سی صنفی عدم مساوات کا بھی دیہی خواتین کو سامنا ہے جیسے زراعت اور زرعی خوراک کے نظاموں میں خواتین کو ان کے کام کے لیے جتنے پیسے ملتے ہیں اس میں بہت بڑے فرق ہیں، اور ان کی زمینوں کی پیداوار میں بھی فرق ہے۔ ان کے پاس جتنی زمین ہے، موبائل ٹیکنالوجی تک ان کی رسائی اور ان کی مالی رسائی میں بھی فرق موجود ہے۔
لیکن اس سب کے علاوہ، خواتین اور لڑکیوں کو زرعی خوراک کے نظام میں درپیش امتیازی سماجی اصول بھی برقرار ہیں، جو یہ پابندیاں لگا سکتے ہیں کہ وہ گھر سے باہر کتنا کام کر سکتی ہیں یا اپنے کام کے لیے کتنی دور جا سکتی ہیں۔ تو جب آپ ان مادی فرقوں اور عدم مساوات کو امتیازی سماجی اصولوں کے ساتھ جوڑتے ہیں، تو خواتین کے لیے زرعی خوراک کے نظام میں مردوں کے مساوی نتائج حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
تبدیلی لانے کے لیے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں مثال کے طور پر، خواتین کی زمین کے حصول اور اس تک رسائی کو بڑھانا زرعی پیداواریت پر بہت سے مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ اس سے گھریلو سطح پر صنفی بنیاد پر تشدد میں کمی آ سکتی ہے اور خاندان کی غذائیت میں بہتری آ سکتی ہے۔ ایک ایسا طریقہ کار جو اثاثوں کی کمی اور سماجی اصولوں دونوں کو مدنظر رکھتا ہے، جسے صنفی تبدیلی والے طریقے کہا جاتا ہے، اس سے خاندانوں میں کام کی تقسیم اور مجموعی طور پر بااختیاری پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان طریقوں سے حاصل ہونے والی بااختیاری سے خاندانوں کی آمدنی اور لچک میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایف اے او نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر مرد اور خواتین کے درمیان کاموجودہ فرق کو ختم کردیا جائے تو پیداواری صلاحیت میں 1 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے 45 ملین لوگوں کے لئے غذائی عدم تحفظ میں کمی واقع ہوسکتی ہے اور اس سے عالمی غذائی عدم تحفظ میں کمی ہوسکتی ہے
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ وہ منصوبے اور پالیسیاں جو خواتین کی بااختیاری پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، موسمیاتی اور دیگر جھٹکوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہت بہتر بنا سکتی ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ بااختیار بنانے والے منصوبوں کی بدولت 235 ملین خاندانوں کی لچک میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے وہ ایسے جھٹکوں کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان خلا کو پُر کرنا اور بااختیاری کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ خواتین اور خاندان موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے کے قابل ہو سکیں۔
پاکستان میں دیہی خواتین کو کن مسائل کا سامنا ہے
2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل دیہی آبادی 14 کروڑ76 لاکھ سے زائد ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا 61 فیصد سے زیادہ بنتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کی تعداد ساڑھے سات کروڑ سے زائد ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم یواین وویمن کی جون 2024 میں نیشنل رپورٹ آن دی اسٹیٹس آف دی وویمن ان پاکستان کے مطابق پاکستان میں رہنے والی 67 فیصد خواتین زارعت کی شعبے سے وابستہ ہیں جن میں سے ایک بہت بڑی تعداد غیر معاوضہ گھریلوورکر کے طور پر کرتیں ہیں جبکہ صرف 25 فیصد خواتین کو معمولی معاوضہ دیا جاتا ہے ۔پاکستان میں رہنے والی خواتین ویسے ہی بہت مسائل کا سامنا ہے جبکہ دیہی خواتین کے مسائل شہروں میں رہنے والی خواتی سے دوگنا ہوجاتے ہیں ۔
تعلیم کی کمی
دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ خاندانی غربت، ثقافتی رکاوٹیں، اور لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کے سبب اکثر لڑکیاں اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ اسکولوں کی کمی اور فاصلے کی وجہ سے بھی دیہی خواتین کو تعلیمی مواقع سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں تعلیمی تفاوت کو واضح کیا گیا ہے جہاں صرف تقریباً 39 فیصد دیہی لڑکیاں سیکنڈری اسکول میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ یہ تناسب دیہی لڑکوں 49 فیصد کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے اور شہری لڑکیوں 59 فیصد اور شہری لڑکوں 60 فیصد کے مقابلے میں اور بھی کم ہے۔
صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی
دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات ناکافی ہیں۔ خواتین کو صحت کی بنیادی سہولیات، زچگی کی دیکھ بھال، اور ماہرین صحت تک رسائی نہیں ملتی، جس کی وجہ سے خواتین کو زچگی کے دوران پیچیدگیاں اور دیگر صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں 2022 میں آنے والے سیلاب کا سب زیادہ نشانہ بھی دیہی خواتین ہیں بنیں لیکن حاملہ خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئیں ۔ اقوام متحدہ کی آبادی فنڈ کے مطابق تقریباً 650,000 حاملہ خواتین اور نوجوان لڑکیاں اس آفت سے متاثر ہوئیں۔
معاشی مواقع کی کمی
دیہی خواتین اکثر غیر رسمی شعبے میں کام کرتی ہیں، جیسے زراعت، دستکاری، اور گھریلو ملازمتیں، لیکن ان کی محنت کا صلہ کم ملتا ہے۔ انہیں باقاعدہ ملازمتوں میں مواقع کم ملتے ہیں، اور اگرچہ وہ زراعت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن زمین اور وسائل پر ان کا حق کم ہوتا ہے۔
زمین اور جائیداد کے حقوق کا فقدان
پاکستان میں دیہی خواتین کو قانونی اور ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے زمین اور جائیداد کے حقوق حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ وراثتی قوانین کے باوجود، خواتین کو اکثر زمین کے مالک ہونے یا اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، جس سے ان کی معاشی حالت مزید کمزور ہوتی ہے۔
صنفی امتیاز
دیہی خواتین کو صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں مردوں کے مقابلے میں ان کے حقوق اور مواقع محدود ہوتے ہیں۔ انہیں اہم فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا، اور ان کے ساتھ روایتی طور پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
گھریلو تشدد اور جبری شادی
دیہی خواتین کو اکثر گھریلو تشدد اور زبردستی کی شادیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کم عمری کی شادیوں کا رواج دیہی علاقوں میں عام ہے، جس سے ان کی تعلیم اور معاشی خودمختاری میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
پانی اور توانائی کی قلت
دیہی خواتین کو پانی اور ایندھن کے حصول کے لیے لمبے فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ کام نہ صرف وقت طلب ہے بلکہ ان کی صحت اور توانائی پر بھی منفی اثرات ڈالتا ہے۔
ماحولیاتی مسائل
ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے خشک سالی، سیلاب اور زمین کی خرابی سے دیہی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، کیونکہ وہ زراعت اور قدرتی وسائل پر منحصر ہوتی ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے ان کی روزی اور غذائی سلامتی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
خاندانی اور سماجی دباؤ
دیہی خواتین کو روایتی رسم و رواج کی پاسداری کرنی ہوتی ہے، اور ان پر گھریلو کام کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔ انہیں سماجی دباؤ کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے مواقع کم ملتے ہیں، اور ان کی زندگی کے اہم فیصلے اکثر خاندان کے مرد افراد کرتے ہیں۔
سیاسی شراکت داری کا فقدان
دیہی خواتین کو سیاسی اور سماجی معاملات میں شامل نہیں کیا جاتا، اور ان کی آواز کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ مقامات پر خواتین کے لیے مخصوص نشستیں ہیں، لیکن ان کا کردار اکثر نمائشی ہوتا ہے اور انہیں حقیقی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔
ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی کی رسائی میں کمی
دیہی علاقوں میں خواتین کو جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہوتی، جس سے وہ تعلیمی اور معاشی مواقع سے محروم رہتی ہیں۔
حکومتی وسائل اور پروگراموں سے محرومی
پاکستان میں دیہی خواتین کو حکومتی فلاحی پروگراموں، مالی امداد اور دیگر ترقیاتی منصوبوں سے پوری طرح فائدہ نہیں پہنچتا۔ ان پروگراموں تک رسائی اور آگاہی کی کمی ان کی معاشی اور سماجی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے۔
پاکستان میں دیہی خواتین کو ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومتی پالیسیوں، تعلیمی اصلاحات، صحت کی بہتر سہولیات، اور قانونی تحفظات کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایک بہتر اور خود مختار زندگی گزار سکیں جس پر کام کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *