یا ہم اس پاکستانی تعلیمی بوجھ کو کم نہیں کرسکتے؟کیا پاکستانی بچوں کو چھوٹی کلاس سے ہی اتنے زیادہ مضامین پڑھانےکی کوئی تک ہے؟مزید ہر سال ہمارے نام نہاد تعلمی مفکرین نے ہر مضمون کے نصاب کے اہداف تبدیل اور بڑھانے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔دنیا میں اچھی پڑھائی اور اچھی اسکولنگ کے لیے
یا ہم اس پاکستانی تعلیمی بوجھ کو کم نہیں کرسکتے؟
کیا پاکستانی بچوں کو چھوٹی کلاس سے ہی اتنے زیادہ مضامین پڑھانےکی کوئی تک ہے؟
مزید ہر سال ہمارے نام نہاد تعلمی مفکرین نے ہر مضمون کے نصاب کے اہداف تبدیل اور بڑھانے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔
دنیا میں اچھی پڑھائی اور اچھی اسکولنگ کے لیے زیادہ تعلیمی بوجھ ٹھیک نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے بچے نصاب کی تبدیلی اور امتحانی طریقہ کا میں تبدیلی کی وجہ سے ہمیشہ دباؤ میں رہتے ہیں۔ ہمارے اساتذہ اور ہمارا تعلیمی نظام، امتحانات لینے پر حد سے زیادہ زور دیتا ہے تاکہ بچوں پر دباؤ برقرار رہے اور وہ ’سیکھ‘ سکیں۔ جبکہ ترقی ہافتہ ممالک میں ایسا نہی ہوتا۔
بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ماہرہن اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر تعلیمی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ماہریں ہمیشہ زمینی حقائق سمجھے اور جانے بغیر نصاب اور پالیسیاں بنا کر جان چھڑا لیتے ہیں۔
بد قسمتی سے’ پاکستان’ لاہور،اسلام آباد،پشاور، کوئٹہ اور کراچی کا نام نہیں ہے۔ الحمداللہ اس میں راجن پور ، بھکر ،پشین،تربت ،دادو ، سہون ،مالاکنڈ اور بشام جیسے پسماندہ علاقے بھی شامل ہیں۔ ان علاقوں کے بچوں نے سکول جانے سے پہلے اور آنے کے بعد کھتی باڑی یا دوسرے کام کاج میں ماں باپ کا ہاتھ بھی بٹانا ہوتا ہے۔
پاکستان میں طلبہ زیادہ تراپنا وقت امتحانات کی تیاری کرتے ہوئے ہی گزار دیتے ہیں مثلا” پری پری موکس، پری موکس، موکس، ہفتہ وار ٹیسٹ، ماہانہ ٹیسٹ،فرسٹ ٹرم ،سیکنڈ ٹرم امتحانات اور سالانہ وغیرہ۔ نتیجتا” ناقص تعلیمی نظام کی وجہ سے بچوں پر دباؤ ہوتا ہے اور طلبہ کو رٹہ لگانا سکھا دیا جاتا ہے،اساتذہ بچوں کو کچھ سمجھانے، سیکھلانے کی پروا نہیں کرتے۔ رٹےنتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ سیکھنے کے تجربے کا لطف ہی نہیں اٹھا پاتا۔ اس طرح طلبہ تعلیم کا اصل مقصد یا اچھی تعلیم حاصل نہیں کرپاتے۔
اہم سب سکول جانے والے بچوں کے کندھوں پر اکثر بھاری بھرکم بستے دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات تو ان کا وزن 7 یا 8 کلو کے قریب بھی ہوتا ہے۔ آخر یہ کس طرح قابلِ فہم ہے؟ طلبہ اتنا زیادہ بوجھ کیسے اٹھا سکتے ہیں اور اس کے ساتھ انصاف کیسے کرسکتے ہیں؟
پاکستان میں بھی ابتدائی دو یا تین جماعتوں میں انگریزی، اردو اور ریاضی کے علاوہ کوئی اور مضمون پڑھانے کا کیا تُک بنتا ہے؟ ہمارے ہاں بھی ابتدائی تعلیمی سالوں میں بچوں کو انہیں مضامین کی ضرورت ہے۔ مثلا” انہیں اعداد، پڑھنا، بولنا، سننا اور لکھنا سیکھنے کی ضرورت ہے۔اس لیے ہمیں بھی اسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہونی چاہیے۔ اے ایس ای آر اور دیگر سرویز ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم بچوں کو اعداد سکھانے اور انہیں خواندہ بنانے میں کوئی کامیاب کردار ادا نہیں کررہے۔
بدقسمتی سے ہمارے اکابرین بھی تعلیمی ماہریں سے ملکی جغرافیائی حالات اور ضروریات کے مطابق تعلیمی نصاب ترتیب نہیں دلواتے ۔ ہر نئے اقتدار میں آنے والے نے سب سے پہلے تعلیم کو ہی تختہ مشق بنایا۔ ہر نیا آنے والا وزیر تعلیم شائد کمیشن کھانے کے لیے تبدیلی کے نام پر سب سے پہلے تعلیم سے ہی کھلواڑ کرتا ہے۔
پنجاب کو ہی لے لیں، نصاب کبھی انگش میڈیم اور کبھی اردو میڈیم میں تبدیل ، اسی طرح امتحانی طریقے بھی تواتر کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں۔ حانکہ کچھ عرصہ پہلے جب پنجاب میں جناب شہباز شریف صاحب کی حکومت میں نصاب کو اردو میڈیم سے انگش میڈیم میں تبدیل کیا گیا تھا تو ناکامیوں کا سامنا کر کے دوبارہ اردو میڈیم میں تبدیل کرنا پڑا تھا۔ پنجاب میں جناب عثمان بزدار کے دور اقتدار میں پھر اردو سے انلش میڈیم میں نصاب کو تبدیل کر دیا گیا۔ شائد کسی کو نوازنا مقصود تھا۔
خدارا تعلیم کو بوجھ نہ بنائیں۔ ہم مسلمان ہیں۔ تمام اسلامی تعلیمات کے لیے ایک ہی اسلامیات کی کتاب کو جامع اور مختصر بنائیں۔نصاب میں سماجی سرگرمیوں کو نصاب کو بھی حصہ بنایا جائے۔ اس طرح ہمارے بچوں کی نشوونما میں مزید بہتری انداز آئےگی۔ ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
انگریزی، اردو اور ریاضی کے مضامین کو بتدریج آگے لے کرچلنا چاہیے۔ ہم اپنے بچوں کوابتائی جماعتوں سے ہی انگش ، اردو ،عربی ، پنجابی/سندھی/پشتو / بلوچی وغیرہ زبانیں کیسے سیکھنے پر مجبور کر سکتے ہیں؟ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی تعلیم ہمیشہ مقامی زبان میں ہوتی ہے۔
چھوٹے بچے ہمیشہ ابتدائی سالوں میں اپنے والدین کو سن کر، بول کر، پڑھ کر اور پھر آخر میں لکھ کر نئی زبانیں سیکھتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں لکھنے پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے اور بچے کو ابتدائی تعلیمی سالوں میں ہی لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ آج جو کچھ ہمارے تعلیمی نظام میں ہورہا ہے اس کے برعکس ابتدائی 2 یا 3 جماعتوں میں تو لکھنے کے بجائے زبانی تعلیم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
خدارا اس بات کا ادراک کریں،اپنی سوچ کو بدلیں کہ ’بچوں کو سب کچھ آنا چاہیے‘ اس سوچ سے ہم کبھی بھی تعلیمی نظام کو بہتر نہیں بنا سکتے۔ جیسے جیسے ہمارے بچے بڑی جماعتوں میں جائیں، ویسے ویسے دوسرے مضامین سے انہیں متعارف کروایا جائے۔
ہمارے تعلیمی ماہرین کے لیے یہ بھت ضروری ہے کہ اگر نصاب میں کچھ شامل کرنا ہے تو نصاب سے کچھ نکالنا بھیضروری ہے نصاب میں شمولیت حذف کرنے کے لیے معقول وجوہات کا ہونا بھی ضروری ہے۔ نصاب میں تبدیلی کے نتیجے میں مزید مضامین یا مواد کو شامل کرکے کتابوں کو موٹا یا وزن میں اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔21ویں صدی کی مہارتیں ، کمپیوٹر سائنس، مذہبی مواد کے کو متوازن کر کے پرانے نصاب میں شامل کیا جائے۔
پاکستان میں ایک اسکولنگ سسٹم کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ وہ چھٹی جماعت میں 8 مضامین پڑھاتے ہیں جن میں انگریزی، اردو، ریاضی، سائنس، تاریخ، جغرافیہ، کمپیوٹر سائنس اور مذہبی مضامین شامل ہیں۔ یہ مضامین کافی زیادہ ہیں۔ ان میں آرٹ، موسیقی یا ان جیسے دیگر مضامین شامل نہیں۔ ان سب میں غیرنصابی سرگرمیاں بھی شامل نہیں ہیں۔ آخر ہم اپنے چھٹی جماعت کے بچوں کو بنانا کیا چاہتے ہیں؟
کتابوں کی تفصیلات میں انگریزی کی 5 کتابیں، اردو کی 3 کتابیں، سائنس کی 2 کتابیں اور بقیہ 5 مضامین کے لیے ایک ایک کتاب شامل ہے۔ یہ بہت زیادہ کتابیں ہیں۔ یہ دیکھنے کے بعد اس امر میں کوئی حیرت کی بات نہیں رہتی کہ بچوں کا بستہ بہت بھاری ہوتا ہے اور وہ سمجھنے کے بجائے رٹے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیا طلبہ کو واقعی اتنی کتابوں کی ضرورت ہے؟
اساتذہ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ وہ پڑھائی کے عمل کو سست نہیں کرسکتے، جن طلبہ کو سیکھنے میں مشکلات کا سامنا ہو انہیں زیادہ وقت نہیں دے سکتے اور نہ ہی مشکل موضوعات کو بار بار دہریا جا سکتا ہے۔ بچارے اساتذہ بھی کیا کریں انہیں نصاب مکمل کرنا ہوتا ہے اور ان کے پاس اسباق کا ایک پلان ہوتا ہے۔ اور اصل مسئلہ ہی یہی ہے۔ کیا کورس اور نصاب مکمل کرنا اسے سمجھنے اور سیکھنے سے زیادہ اہم ہے؟
جواب واضح ہے لیکن کوئی اس جواب کو تسلیم کوئی نہیں کرتا۔ تقریباً تمام اسکولوں اور ہر سطح پر سیکھنے کے بجائے نصاب ختم کرنے کو فوقیت دی جاتی ہے۔
کاش ہمارے تعلیمی ماہرین کے ذہن میں یہ بات آ جائے کہ مضامین کے بڑھتے ہوئے بوجھ نےہمارے نوجوانوں کی نشوونما کو متا ثر کر رہی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو سیکھنے اور تعلیمی عمل سے لطف اٹھانے کا موقع نہیں دے رہے ہیں۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *