جھنگ کی تحصیل شورکوٹ کی آبادی2023 کی مردم شماری کے مطابق 5 لاکھ 48 ہزار 568 نفوس پر مشتمل ہے ۔یہ شہر حضرت سلطان باہو والدین کے مزرات ہونے کی وجہ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ شہر کبھی ایک صوبہ بھی تھا۔ شورکوٹ کی
جھنگ کی تحصیل شورکوٹ کی آبادی2023 کی مردم شماری کے مطابق 5 لاکھ 48 ہزار 568 نفوس پر مشتمل ہے ۔یہ شہر حضرت سلطان باہو والدین کے مزرات ہونے کی وجہ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ شہر کبھی ایک صوبہ بھی تھا۔ شورکوٹ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی شہر جھنگ اور انسان کی تاریخ ۔ قدیم تاریخ میں ضلع جھنگ کے کسی شہر کا نام اگر تھا تو وہ یہی شوکورٹ ہی ہے۔ البتہ اس کے مختلف مگر ملتے جلتے نام تاریخ کی کتابوں میں نظر آتے ہیں مثال کے طور پر مصریوں کے عہد میں ایشوکوٹ، آریاؤں کے عہد میں ایشورکوٹ ، شوریوں کے عہد میں شورکوٹ اور یونانیوں کے عہد میں شورکوٹ کا تذکرہ ملتا ہے۔تاریخ فرشتہ کے مطابق اسے قلعہ شور اور شہرکو بلدہ شورکے نام سے لکھا گیا ہے۔
مصریوں کے دورمیں سیاتریس کے دور میں یہ ایشورکوٹ کے نام سے منصوب تھا یہ عہد عتیق کا زمانہ تھا ۔ سیاتریس نے دوسرا حملہ فرعون ستایریسی کی قیادت میں کیا تھا اس دوران اس نے منکیرہ ،بھیرہ،تریموں گھاٹ اور کوٹ کروڑ کو اپنی مقبوضیات میں شامل کیا تھا۔اس دور میں ایشورکوٹ(شورکوٹ) دریا کے مشرقی کنارے آباد تھا۔سکندریونانی سے قبل یہ علاقہ راجہ شیوکی عملداری میں تھااس نے اس کا نام شورکوٹ رکھا ۔ سلطان شیرشاہ سوری نے جب اپنے چچا زاد بھائی تاج الدین سوری کو یہاں کا گورنر مقرر کیا تو اس نے اس کی کھدائی کرانے کوشش کی تاکہ اسے دو بارہ تعمیر کرایا جاسکے لیکن ناکام رہا اور آج تک برباد شدہ قلعے کے کھنڈرات اُسی طرح پڑے ہیں کسی بھی حکومت کو کھدائی کرانے کا حوصلہ نہیں ہوا۔حضرت سلطان باہونے اپنی بشیتر کتب میں قلؑعہ شورکوٹ والی جگہ کا نام قہرگان لکھا ہے۔
اگر تاریخ جائزہ لیا جائے تو 900 قبل مسیح میں یہ شہر مصریوں کے زیر اثر رہا،326 قبل مسیح میں جب سکندراعظم نے ہندوستان پر حملہ کیا تویہ شہر اس کے زیرتسلط رہا اسی طرح 272 قبل مسیح سے 185 قبل مسیح تک اشوک بدھ مت، 185 قبل مسیح 126 قبل مسیح تک باختریوں نے اس پر حکومت کی۔ چینی قبیلہ یوچی اور کشان 180 عیسوی 320 عسیوی تک پنجاب پر قابض رہا تو شورکوٹ بھی ان کے زیر تسلط رہا۔اسی طرح راجہ بکرات اور 320 عسیوی تا 510 عیسوی ھن قبیلہ،تورامن(513عسیوی)،راجہ چچ(631 عیسوی)اور راجہ داہربھی کسی نہ کسی طرز میں یہاں کے حاکم رہے۔
محمد بن قاسم نے جب 712 عسیوی سندھ کو فتح کیا تو وہ ملتان کو فتح کرنے بعد شورکوٹ کو فتح کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ محمد بن قاسم نے سندھ سے لے کر چنیوٹ کی ریاست کو پانچ صوبوں اردر،ملتان،شورکوٹ،جندور کوٹ اور کوٹ کروڑ میں تقسیم کردیا اورجلال الدین غازی کو یہاں کا گورنرمقرر کردیا شورکوٹ بھڑ پر واقع غازی پیر کا مزار انہی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ گورنر جلال الدین کی وفات کے بعد امیر داؤد طائی یہاں کا حاکم مقرر ہوا لیکن دوسال بعد ہی خرابی صحت کے باعث عراق وآپس چلا گیا اور اس نے جنید کو یہاں کا حاکم بنا دیا۔جعفربن عبداللہ بن محمدبن عمرالاطواف بن حضرت علی کے دورمیں قلعہ شورکوٹ پر حملہ کیا گیا اور اسے فتح کرلیا گیا اس دور میں اگر چہ سندھ اور پنجاب کا کچھ علاقہ اس وقت میں بھی عباسی خلافت کا ماتحت تھا لیکن ملتان اور شورکوت کے علاقے مصر کی فاطمی خلافت سے وابستہ ہوگئے۔
امیر سبتگین نے بھی اس علاقے پر اپنی حکومت بنائی۔ سلطان محمود غزنوی جب 395 ہجری میں بلوچستان کے راستے ہندوستان پر حملہ کیا تو دریائے سندھ عبور کرکے دریائے جہلم کے راستے بھیرہ پر حملہ آور ہوا تو اس نے تریموں گھاٹ کے ذریعے ملتان پر حملہ آور ہوتا تو اس نے اٹھارہ ہزاری اور شورکوت کو بھی فتح کرلیاتواس نے سندھ کا علاقہ ملتان سے کاٹ کر ملتان کو الگ صوبہ بنا دیا اور ملک ایاز کو جھنگ ، شورکوٹ ، بھیرہ اور لاہور کا حاکم مقرر کردیا۔غزنویوں کے علاقہ پر اثرورسوخ ختم ہونے کے بعد بھیرہ اور شورکوٹ راجپتوں کے عملداری میں چلا گیا اور عملی طور پر کھوکھر یہاں کے حآکم بن گئے۔محمد غوری نے 1183 میں جب سیالکوٹ فتح کیا تو اس نے لاہور، ملتان اور شورکوٹ کو بھی حاصل کر لیا تایخ دانوں کے مطابق محمد غوری ملتان پر حملہ کے لئے درہ گومل کے راستے داخل ہوا اور دریائے سندھ عبور کر کے دریائے جہلم کے کنارے کچھی کے مقام سے شورکوٹ میں داخل ہوا تھا اور اس نے گڑھ مہاراجہ کے مقام پر ایک فوجی چھاؤنی بھی بنائی تھی۔چیگز خان کے ایک جرنیل طرطائی نے بھی اس علاقے میں خوب تباہی مچائی۔یہ علاقہ تاج الدین یلدرز،رضیہ سلطانہ،ناصرالدین محمود،غیاث الدین بلبن مغل بادشاہ امیر تیمورکے بھی کسی نہ کسی طور ان کی عمل داری میں رہااور اس کے بعد سے یہ مغلیہ دور کا کسی نہ کسی طور حصہ رہا۔ شیر شاہ سوری جب ہمایوں کی تلاش میں نکلا تو بھیرہ خوشاب کے راستے اس علاقے میں داخل ہوا اس نے شورکوٹ تا بھیرہ کے علاقوں کی نگرانی کے لئے اپنے چچا زاد بھائی تاج الدین سوری کو نگران مقرر کیا اور شورکوٹ کو اپنا ہیڈ کواٹر بنالیا۔ تاج الدین سوری کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ وہ خود بھڑ پر جاکراذان دیا کرتا تھا۔ سوری خاندان کے بعد جلال الدین اکبراعظم ، نورالدین جہانگیر،بھی اس علاقے پر حکمران ررہے ، مختلف ادوار میں کھوکھر، نول اور ایک طویل عرصے تک سیال بھی اس علاقے کے حکمران رہے ۔ سکھوں ے دورمیں راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں جلال اورعرف جلا بھروانہ جو سکھوں کا سخت مخالف نے جھنگ کو 4 لاکھ 40 ہزار کے عویض پٹے پر لے لیا لیکن 1842 میں جب انگریز ملتان پر قابض ہوئے تو یہ علاقہ بھی ان کے زیر تسلط چلاگیا۔
انگریزوں نے جہاں پر اس علاقے کے مسلمانوں بہت ظلم و ستم ڈھائے وہی پر یہاں ترقیاتی کام بھی کروائے۔ 1849 میں جھنگ کو ضلع بنانے کے بعد 1850 میں شورکوٹ کو تحصیل بنا دیا ۔ شورکوٹ-شیخوپورہ برانچ لائن 1907 سے 1911 کے درمیان تعمیر کی گئی۔ اس لائن کے لیے سروے 1906 میں شروع ہوا تھا۔ اس لائن کو اصل میں شورکوٹ روڈ-چچوکی ریلوے کہا جاتا تھا اور یہ نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ریلوے کا حصہ تھی۔
شورکوٹ-لالہ موسیٰ برانچ لائن اصل میں 1881 میں لالہ موسیٰ سے ملکوال تک ایک میٹر گیج ریلوے کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ اسے ابتدائی طور پر سندھ-ساگر ریلوے کہا جاتا تھا، لیکن بعد میں اسے براڈ گیج میں تبدیل کر دیا گیا اور دیگر لائنوں کے ساتھ ضم کر دیا گیا۔ اس وقت یہاں پر صرف چند جھونپڑیاں ہوا کرتیں تھیں۔1968 میں پی اے ایف بیس رفیقی کی تعمیر کے بعد اس علاقے کو کینٹ کا درجہ مل گیا اور یوں یہ شہر دوحصوں شورکوٹ کینٹ اور شورکوٹ سٹی میں تقیسم ہوگیا۔اگرچہ رواں صدی کے دوران اس شہرکو موٹروے سے بھی منسلک کردیا گیا لیکن تاریخ کے کئی سخت اور خوش کن ادوار کا امین شورکوٹ اب بھی ایک پسماندہ تحصیل ہی ہے جو اس شہر کے سیاستدانوں کی اہلیت پرایک سوالیہ نشان ہے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *