728 x 90

جھنگ کی طالبات ایک اور ثریا سلیم کا منتظر

جھنگ کی طالبات ایک اور ثریا سلیم کا منتظر

پاکستان کے بننے کے ایک دہائی سے زائد عرصہ بیت جانے کے بعد بھی جھنگ کی لڑکیوں کے لیے کالج میں تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا کیونکہ جھنگ میں خواتین کے لیے کوئی کالج نہیں تھا اور بچیوں کو یہ کہہ کر گھر بٹھا دیا جاتا کہ شہر سے باہر بھیجنا

پاکستان کے بننے کے ایک دہائی سے زائد عرصہ بیت جانے کے بعد بھی جھنگ کی لڑکیوں کے لیے کالج میں تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا کیونکہ جھنگ میں خواتین کے لیے کوئی کالج نہیں تھا اور بچیوں کو یہ کہہ کر گھر بٹھا دیا جاتا کہ شہر سے باہر بھیجنا ہماری روایات نہیں ہیں. ویسے تو جھنگ  شہر میں اسکول کی سطح پرلڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے کا آغاز 19 ویں صدی کے اوائل میں ہی ہوگیا تھا لیکن کالج کی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں تھا.1963 میں جھنگ کے پہلے خواتین کالج کی بنیاد رکھی گئی اس کالج کا پہلا نام گورنمنٹ زنانہ کالج جھنگ تھا اور یہ شہید روڈ پر واقع موجودہ ذیل گھر میں قائم کیا گیا  کچھ عرصہ بعد اس کالج کو گوجرہ روڈ پر اس کی موجودہ عمارت میں منتقل کر دیا گیا. گورنمنٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین جھنگ صدر کی پہلی پرنسپل محترمہ ثریا سلیم صاحبہ تھیں. اس کالج کے قیام اور اس کے فروغ و ترقی میں بیگم ثریا سلیم کا کلیدی کردار تھا جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا . محترمہ ثریا سلیم 1963 سے 1968 تک اس کالج کی پرنسپل رہیں انہی کے دور میں اس کالج کے ادبی مجلّہ خضرا کی اشاعت کا آغاز کیا گیا اور انہوں نے کالج میں اپنے دور میں کھیلوں کی سرگرمیوں کا بھی آغاز کیا.
سیدہ احمد نساء بیگم ثریا جبیں 1924 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئیں آپ کے والد علامہ سید ظہور الحق عالم اسلام کے جیئد علماء کرام میں نمایاں حیثیت کے مالک تھے. انہوں نے ابتدائی تعلیم دکن کے مشہور زمانہ فوقانیہ مشقی سرکاری عالی سے حاصل کی 1941 میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن سے بی اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا. آپ نے جامعہ عثمانیہ کے لیے دو مقالات احوال و آثار جامی  اور تاریخ  تعلیم اطفال بھی قلمبند کئے. آپ نے سلک ثریا کے نام سے اردو کلام مرتب کیا. آپ کی تقاریر کا مجموعہ خطابات ثریا کے نام سے شائع ہوا. محترمہ ثریا سلیم نے پنجاب یونیورسٹی کے لیے مغلیہ شہزادوں کی علمی و ادبی اور سماجی اور معاشرتی خدمات کے موضوع پر کئی برس تحقیقاتی کام بھی کیا. آپ نے عملی طور پر تو سیاست نہیں کی لیکن قیام پاکستان سے قبل خواتین حیدرآباد دکن  کی سیاسی بیداری کے لئے اتحاد المسلمین اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے خطبات کے ذریعے ہاتھ بٹایا.
تقسیم ہند سے قبل ہی قائداعظم آپ کے کارناموں سے واقف تھے آپ کو پاکستان آنے کی دعوت دی لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا.
سقوطِ حیدر آباد دکن کے بعد قائد اعظم اور قاسم رضوی کی حمایت اور مسلم لیگ اور اتحاد المسلمین کے تعلق کی بناء پر آپ کو گرفتار کر کے باقاعدہ فوجی عدالت میں میں مقدمہ چلایا گیا یہ مقدمہ آپ نے خود بغیر کسی وکیل کے لڑا اور عدالت سے باعزت بری ہوئیں. ایسی کامیاب مہمات کے باعث آپ کو خطیب زمن اور بلبل دکن کے القابات سے نوازا گیا. فوجی عدالت میں مقدمہ جیتنے کے بعد آپ نے پاکستان آنے کا ارادہ کیا نہرو کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے مقبوضہ کشمیر یا کسی دوسری پسندیدہ جگہ کے لئے خدمات کی پیشکش کی لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا اور اپنا گھر بار چھوڑ چھاڑ کر پاکستان چلی آئیں.
پاکستان آنے کے تیسر ے روز ہی محترمہ فاطمہ جناح نے ملاقات کے لئے آپ کو اپنے پاس بلا لیا. جب شمال مشرقی گجرات میں ایک زنانہ کالج کی بنیاد رکھنی تھی تو ایک وفد مادر ملت کے پاس اس امر کی دعوت لے کر پہنچا کہ آپ سے زنانہ کالج کی بنیاد رکھیں. یہ دعوت قومی خدمت سمجھ کر قبول کی اور اس وفد کی رفاقت حاصل کی صرف یہی نہیں بلکہ مادر ملت نے بانفس نفیس کالج کا افتتاح کیا اور کالج کو اپنے نام سے منسوب کرنے کی اجازت دی. آپ کی سماجی خدمات کا سلسلہ بھی نہایت وسیع ہے.اپنے اکلوتے بیٹے شاگرد سلیم مرحوم کی یاد میں بیڑ، اورنگزیب آباد، بمبئی، مہاراشٹر سمیت کئی شہروں میں تعلیمی ادارے اور خواتین کے لئے دارلفنون قائم کئے اس کے علاوہ اپنی زمینوں پر اپنے بیٹے کی یاد میں متعدد پرائمری اسکول بھی کھولے. آپ نے لالہ موسیٰ میں شمیم گرلز اسکول سمیت کراچی، چھانگا مانگا اور گجرات میں ایک ایک گرلز اسکول کا افتتاح کیا.
محترمہ ثریا سلیم صاحبہ اردو اور فارسی کی بہترین شاعرہ بھی تھیں.
کالج کے پہلے ادبی مجلّہ خضرا میں محترمہ کوثر سلطانہ کے محترمہ ثریا سلیم صاحبہ کے شائع ہونے والے انٹرویو کے چند  اقتباسات حاضر ہیں جس سے قارئین کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ جھنگ میں خواتین کالج کے قیام کے لیے کس قدر شدید خواہش رکھتیں تھیں اور انہوں نے اس کے لیے کتنی جدوجہد کی. محترمہ کوثر سلطانہ لکھتیں ہیں کہ میں نے ثریا سلیم صاحبہ سے پوچھا کہ انہوں نے کسی ترقی یافتہ شہر میں کیوں کالج قائم نہ کیا اور جھنگ جیسے دور افتادہ علاقے میں زنانہ کالج کے قیام کا بیڑہ کیوں اٹھایا تو انہوں نے کہا کہ آج سے اٹھارہ بیس برس پہلے(یہ انٹرویو 1966 میں لیا گیا تھا) مجھے ایک مقامی دولت مند سہیلی سے تبادلہ خیالات کا اتفاق ہوا جب میں ان سے پوچھا کہ یہاں کوئی گرلز کالج ہے تو اس نے انتہائی مضحکہ خیز انداز میں جواب دیا کہ جھنگ اور گرلز کالج کا قیام دو متضاد چیز یں ہیں میں نے اپنی سہیلی سے کہا کہ آپ کے پاس اس قدر دولت ہے اگر اس کا صحیح مصرف نہ ہو تو دولت رکھنے کا مقصد ہی کیا رہ جاتا ہے. آپ کی سہیلی نے جواب دیا کہ اس علاقے کی لڑکیاں اگر تعلیم یافتہ ہو گئیں تو ہمارے پاوں کون دبانے گا. آپ کی سہیلی نے جب یہ جواب دیا تو مجھے پاکستان آنے کے بعد پہلی بار اپنی کھوئی ہوئی دولت کا احساس شدت کے ساتھ ہوا.اگر آج میرے پاس اپنی کھوئی ہوئی دولت ہوتی تو میں جھنگ میں ایک زنانہ کالج ضرور قائم کرتی. اس دولت مند سہلیی نے جواب دیا کہ نہ آپ کے پاس دولت آئے گی اور نہ ہی آپ جھنگ میں کالج قائم کر سکیں گی. یہ بات سن آپ کو شدید صدمہ پہنچا اور آپ نے مصمہ ارادہ کر لیا کہ زندگی میں کسی نہ کسی وقت یہاں کالج ضرور قائم کروں گی. رب العزت نے مجھے ہر قدم پر آگے بڑھنے کی ہمت عطاء فرمائی اور جب مجھے سے جھنگ میں تقرر اور کالج کی بابت استفسار کیا گیا تو بلا پس پیش میں نے ہامی بھر لی اور آڈرز کاانتظار کئے بغیر جھنگ پہنچ کر کالج اور اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لئے کوششوں کا آغاز کردیا اور بالآخر جھنگ میں زنانہ کالج قائم کرنے میں کامیاب ہوگی. آپ نے کالج کے قیام کے بعد کالج کی موجودہ عمارت کے لئے کوششیں شروع کر دیں اور کالج کے لیے 75 کنال سے زیادہ زمین حاصل کرلی اور اس پر نئی عمارت بھی قائم کرلی(کالج کا موجودہ پرانا بلاک) . محترمہ ثریا سلیم کے بے حد اصرار پر حکومت کی جانب سے 30 ہزار روپے کی رقم کالج کے فرنیچر کے لیے دی گئی اور سائنسی آلات کے لئے علیحدہ سے گرانٹ منظور کی گئی . جھنگ میں گرلز کالج کا قیام اگرچہ حکومت کا فیصلہ تھا لیکن اس میں محترمہ ثریا سلیم کی کوششوں سے کسی طور بھی انکار کیا جانا ممکن نہیں. بیگم ثریا سلیم کی یہ خصوصی شفقت و عنایت ہے اور ان کا ہم پر احسان ہے انہوں نے جھنگ میں لڑکیوں کے لیے ایک عارضی انٹر کالج قائم کیا جو بعد میں ڈگری کالج میں تبدیل ہوگیا.
محترمہ ثریا سلیم صاحبہ نے تو جھنگ کی طالبات پر احسان کر دیا  اب  نصف صدی سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد یہ کالج ایک اور ثریا سلیم کے منتظر ہے  جو اس کالج میں طالبات کے لیے بہترین اور دور جدید سے ہم آہنگ تعلیمی سہولیات اور نئے شعبہ جات کے لیے اپنا کردار ادا کرے.
اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کالج کے رقبے میں بھی اضافہ نہ ہو سکا اور نہ ہی اسے دور جدید کے تقاضوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ کیا جاسکا اگرچہ اس کالج میں بی ایس کے چند مضامین کی کلاسز کا اجراء تو کر دیا گیا ہے لیکن اس کے لیے الگ سے کوئی بلاک تعمیر نہیں کیا گیاجس کی وجہ سے کالج کی طالبات کو تعلیمی مسائل کا سامنا ہے.
یہ بات ٹھیک ہے کہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ، لاہور کالج فاروویمن اور یونیورسٹی آف جھنگ میں بھی ایم اے ایم ایس سی اور بی ایس کے کچھ مضامین میں تعلیم دی جارہی ہے. اس پر کسی اور وقت بات کریں گے کہ وہاں تعلیمی مسائل کیا ہیں لیکن گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج  نصف صدی کا قصہ ہے یہ آج کل کی بات نہیں ہمیں ایک اور ثریا سلیم کے انتظار کی بجائے  خود اس کالج کے لیے کوشش کر نی چاہئے تاکہ اس میں طالبات کے لئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق زیادہ سے زیادہ مضامین کا آغاز کیا جا سکے.
سب اہم. بات یہ کہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج جھنگ کی دیواروں پر جہاں پر پاکستان کی نامور خواتین کی تصاویر لگائی گئی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام عالی مرتب اور انتہائی قابل. قدر خواتین ہیں لیکن وہاں پر محترمہ ثریا سلیم کی تصویر کا نہ ہونا بھی نہ صرف اس کالج کے ساتھ نا انصافی ہے بلکہ محترمہ ثریا سلیم کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بھی مناسب عمل نہیں لہذا ہماری ڈپٹی کمشنر جھنگ سے گذارش ہے ان کی تصویر بھی اس کالج کی دیوار پر لگائی جائے کیونکہ جھنگ کی طالبات کے لیے ان کی خدمات سے انکار ممکن ہی نہیں.

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos