غالبا” 1930ء میں آل انڈیا کانگرس نے لاہور کے اجلاس میں پنڈت نہرو کو اپنا صدر منتخب کیا تھا اور اس اجلاس میں نو آبادیات کی بجائے مکمل آزادی کا ریزولیشن بھی پاس کیا تھا اس دن کی یاد میں کانگرس والے 29 جنوری کو ہر سال یوم تشکر منایا کرتے تھے جھنگ میں بھی
غالبا” 1930ء میں آل انڈیا کانگرس نے لاہور کے اجلاس میں پنڈت نہرو کو اپنا صدر منتخب کیا تھا اور اس اجلاس میں نو آبادیات کی بجائے مکمل آزادی کا ریزولیشن بھی پاس کیا تھا اس دن کی یاد میں کانگرس والے 29 جنوری کو ہر سال یوم تشکر منایا کرتے تھے جھنگ میں بھی گانگرسی یہ دن اسی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا کرتے تھے۔ چنانچہ جھنگ کے کا نگر سیوں نے اس دن کی یاد میں جلسہ اور جلوس نکالنے کا پروگرام بنایا جب اس کا علم مسلمانوں کو ہوا تو مسلمانوں میں ایک خاصا کھچاؤ پیدا ہو گیا ۔ چنانچہ اس جلسہ کی روک تھام کے لیے مسلم لیگ کا ایک وفد جس میں کرتل سید عابد حسین شاه مرحوم، میجر مبارک علی شاہ مرحوم، سردار حسین شاه مرحوم آف رجوعه شیخ محمد سعید ایڈوکیٹ، مہر غلام فرید کیلانہ اور دیگر ممبران مجلس عاملہ نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نریندرسنگھ سے ملاقات کی اور اس کو باور کرانے کی پوری کوشش کی کہ اگر یہ جلسہ اور جلوس نکالا گیا تو اس سے ہندو مسلم فسادات ہونے کا خدشہ ہے اور ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہو جائیں اورسوائے فسادات کے اور کچھ نہ حاصل نہ ہوکیونکہ پہلے صرف جلسہ ہوا کرتاتھا جلوس نہیں نکالا جاتا تھا اب کونسی ایمر جنسی ہے کہ جلوس نکالا جائے لیکن اس نے ایک نہ مانی اور کہتا رہا کہ کوئی فساد نہیں ہو سکتا ریزور فورس ہمارے پاس ہے اس کی باتوں سے وفد اس نتیجے پر پہنچا کہ اب یہ جلوس خود اپنے ہی ایما پر نکلوانا چاہتا ہے چنانچہ چند لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اس جلوس کو ہر قیمت پر روکا جائے اگر یہ مذموم حرکت میں کامیاب ہو گیا تو اس سے کوئی اور بڑی شرارت کرے گا۔
دوسرے دن 1بجے قبل دو پر یہ جلوس نکلنا تھا چنانچہ کرنل عابد حسین شاه مرحوم رات بھر دیہاتوں میں پھرتے رہے اور وہاں سے کافی تعداد میں دیہاتی مسلمانوں کو لے آئے اور جلسے کے اعلان کی ذمہ داری مہرغلام فرید کیلانہ کے ذمہ لگائی چنانچہ مہرغلام فرید کپلا نہ نے تانگے پر یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ کل نو بجے کٹڑہ بیروالا میں جہاں سے جلوس گزرنا تھا، مسلم ایک کا جلسہ ہوگا جس میں سید کرمل عابد حسین اور دیگر اکابرین مسلم لیگ تقاریر کریں گے مہر غلام فرید کپلا نہ محور در در جا کر مسلم لیگ کے کارکنوں کو صورت حال سے آگاہ کیا اور جلسہ کو کامیاب بنانے کی پر زور اپیل کی جب مہر غلام فرید کپلانہ کا تانگہ کو توالی کے سامنے سے اعلان کرتا ہوا گزرا تو ایک سپاہی نے اس سے کہا کہ تمہیں کو توال صاحب بلا رہے ہیں کو توال صاحب کے بلاوے پرمہر صاحب کو توال کے پاس چلے گئے تو کوتوال علیحدگی میں ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ آپ لوگوں نے جو موقف اختیار کیا ہے اس پر سختی سے ڈٹ جائیں سکھ ہر حالت میں جلوس نکلوانا چاہتے ہیں اس نے سکھ سپاہی باہر کے سب اتھانوں سے یہاں بلا لیے ہیں انگریز ایس پی اس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے ہماری مسلمان فورس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر سکھ نے خود جلوس پر لاٹھی چارج یا گولی کا حکم دیا تو ہم ہتھیار رکھ دیں گے اور سکھ سپاہیوں نے جو کہ ہم سے آگے ہوں گے گولی چلائی تو ہم ان کی پیٹھ میں گولی ماریں گے۔
پورے شہر میں اعلان کے بعد دوسرے دن کٹڑہ بیر والا میں سٹیج لگا کر مسلم لیگ والوں نے ماتیک فٹ کر دیا اور ٹھیک آٹھ بجے جلسے کا اعلان کر دیا لڑکوں نے نعتیں اور نظمیں پڑھنی شروع کردیں مسلمان جوق در جوق آنا شروع ہو گئے 9 بجے تک سارا کٹڑہ بیر والا بھر گیا ادھر دوسری طرف ڈپٹی کمشنر اور اس کی ٹیم نے ایک اور چال چلی انہوں نے کرتل صاحب کو شام کے وقت بلا کر رات گئے تک باتوں میں لگائے رکھا وہ اس لیے کہ وہ دیہات سے لوگوں کو اکھٹا نہ کر سکیں صبح ہوتے ہی ڈی سی نے کر تل عابد اور شیخ محمد سعید کو بلا لیا وہاں کا نگرسی بھی موجود تھے وہاں پر انہیں جلوس کے متعلق الجھائے رکھا اس کا خیال تھا کہ اس طرح ان کا جلسہ نہیں ہو سکے گا اور کا نگرسی اتنے میں جلوس نکال لیں گے صبح ساڑھے نو بجے یہ دونوں صاحب واپس نہ آئے تو پتہ کرنے پر پتہ چلا کہ وہاں پر کانگرسی نمائنوں سے جلوس کے متعلق بات چیت ہو رہی ہے تو کارکنوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں جلد شروع کر دینا چاہیے اور جلوس کو روک لینا چاہیے خواہ نتائج کچھ بھی ہو۔
جس کے بعد مہرغلام فرید کیلانہ نے جلسہ کی کارروائی شروع کرتے ہوئے پاکستان اور مسلم لیگ کے حق میں تقریر شروع کر دی اس جلسہ گاہ میں ہندو کا نگرسی بھی موجود تھے اس پر مہرغلام فرید کپلا نہ نے اپنا موضوع بدلتے ہوئے ڈپٹی کمشنرنریندر سنگھ کو اپنی تقریر میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ڈی سی ہندو مسلم فسادات کرانا چاہتا ہے کیونکہ فساد برپا کرانا اس کی پرانی عادت ہے قدرت نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ڈی سی کو اپنی گولی کا نشانہ بنائیں کیونکہ اس شخص نے مسجد شہید گنج میں بھی گولی چلاتی تھی اور ساتھ ہی مہر صاحب نے کہا کہ ہم جلوس کسی قیمت پر نکلنے نہیں دیں گے ۔ اس پر جلسہ گاہ میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا تو ہندوؤں نے اپنی حفاظت کے لیے دوکانیں بند کرنا شروع کر دیں اس افراتری کو دیکھتے ہوئے کانگرس کا سیکرٹری ڈی سی کی کوٹھی جا پہنچا جہاں پر کرنل عابد حسین اور شیخ محمد سعید وغیرہ مذاکرات کر رہے تھے سیکرٹری نے یہ بھی اطلاع دی کہ جلسہ گاہ میں فساد کا خطرہ ہے اس پر ڈی سی نے کرنل صاحب سے مخاطب ہو کر جلسہ ختم کرنے کو کہا اس پر کر تل صاحب نے جواب دیا کہ ہم کل سے آپ کو کہہ رہے تھے کہ اگر جلوس بند نہ کرایا تو فساد ہو جائے گا کیونکہ اس سے مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہونے کا خدشہ بھی تھا آپ نے ہماری ایک نہ مانی آخر وہی ہوا جس کا ہمیں خطرہ تھا اب یہ میرے اختیار سے باہر ہے کیونکہ اب میں مسلم لیگ کو اس سے باز نہیں رکھ سکتا ہاں البتہ اگر جلوس بند کر دیں تو میں انہیں جلسہ بند کرنے کے لیے روک سکتا ہوں اس پر فورا” یہ بات مان لی گئی کہ نہ مسلمان جلسہ کریں اور نہ ہندو جلوس نکالیں گے ابھی سٹیج پر سے مہر غلام فرید کہلانہ تقریر کر رہا تھا کہ ادھر سے کر تل عابد حسین شاہ رائے سلطان بھٹی( جو اس وقت جھنگ مسلم لیگ کے صدر تھے) اور شیخ محمد سعید ایڈووکیٹ جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو کرنل صاحب نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کے عزم و ہمت کو سلام کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ ہندوؤں نے اپنا جلوس ختم کر دیا گویا کہ آپ نے بازی جیت لی ہے اگر آپ اپنے موقف پر ڈٹ کر جرات کا ثبوت نہ دیتے تو یہ سکھ کبھی گھٹنے نہ ٹیکتا جلسہ ختم کر دیا گیا اور مسلمان نعرے بازی کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چل کھڑے ہوئے اس طرح سکھ ڈی سی اپنے ذلیل عزائم میں بری طرح ناکام ہوا۔
یہ تو تھی مقامی انتظامیہ سے ٹکراؤ کی ایک جھلک حالانکہ ایسی بے شمار مثالیں موجودہ ہیں جس میں علاقہ کے مسلمانوں نے بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرانے سے گریز نہ کیا اور وہاں بات کہاں سے کہاں پہنچی سابق سطور میں تذکرہ ہو رہا تھا خضری وزارت کے خلاف جھنگ مسلم لیگ کے کردار کا اس کے بدنام زمانہ ڈپٹی کمشنر نے علاقہ کو فسادات سے محفوظ رکھنے اور مسلم لیگ کی
کارروائیوں کو روکنے کے لیے جن آٹھ آدمیوں کو گرفتار کرنے کے احکامات صادر کیے ان میں کرنل سید عابد حسین شاہ ، محمد عارف خان رجبانہ ،شیخ محمد سعید ایڈووکیٹ ، رائے احمد نوازسنگرا ایڈووکیٹ کپلانہ برادران مہرغلام فرید کیلانہ اورمہر شوکت حیات کپلانہ اور سید محمد غوث شاه گدی نشین دربار عالیہ حضرت شاہ جیونہ کو بیک وقت ایک ہی رات میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا یہ حضرات ایک ماہ تک جیل میں ہی رہے ادھر مخدوم خضر حیات بھی اس تحریک سے اپنے آپ کو الگ تھلگ نہ رکھ سکتے تھے ان صاحبان کی گرفتاری کے دوسرے روز مقامی مسلم لیگ کے رضا کاروں نے شہر میں ایک ہنگامہ خیز جلوس نکالا جس کی قیادت مخدوم خضر حیات رائے سلطان احمد بھٹی (صدر جھنگ مسلم لیگ نے کی اس میں علاقہ موچیوالہ کے بلوچ بھی کثیر تعداد میں موجود تھے جلوس شہر کا چکر لگاتے ہوئے جب تھانہ صدر کے قریب پہنچا تو ایک نوجوان رضا کار قاضی محمد شریف مسلم لیگ کا جھنڈا اٹھائے ہوئے آگے آگے چل رہا تھا اور خوب جوش و خروش سے نعرہ بازی کر رہا تھا حکومت نے تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے جلوس پر لاٹھی چارج کر دیا جابر سکھ افسر کی لاٹھی سے ایک مسلمان رضا کار قاضی محمد شریف ظلم و ستم کا نشانہ بن کر زخمی ہو گیا چہرے پر گہرے زخم آئے تو اسے فورا” سول ہسپتال جہاں پر آجکل عابد حسین میموریل ہسپتال کام کر رہا ہے لے آئے اور اس کی جگہ عابد حسین بھٹی نے مسلم لیگ کے گرتے ہوئے پرچم کو سنبھالا دیا تو اس پر بھی لاٹھیوں کی بارش کر دی گئی وہ بھی زخمی ہو کر گر پڑا اسے بھی ہسپتال پہنچا دیا گیا قاضی محمد شریف زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا اور عابد حسین بھٹی کو مرہم پٹی کر کے موقع پر ہی فارغ کر دیا گیا اس کے دوسرے روز شہر میں مسلم لیگ کے زیر اہتمام ایک بہت بڑا جنازے کا جلوس نکالا گیا یہ جلوس جھنگ کی تاریخ میں اپنی مثال آپ تھا قاضی محمد شریف شہید کوسابقہ فروس سینما اور موجودہ اسلم مارکیٹ کے سامنے نور مسجد کے احاطہ میں دفن کر دیا گیا اور اس بازار کا نام مسلم لیگ نے شہید روڈ کے نام سے منسوب کر دیا جو آج تک قاضی محمد شریف کی قربانی کی یاد دلاتا ہے۔
اس کے بعد جھنگ میں گرفتاریوں کا تیزی سے سلسلہ شروع ہو گیا گرفتار ہونے والوں میں وکیل ڈاکٹرز، عالم فاضل ،بیرسٹراورگرایجویٹ بھی شامل تھے جو پاکستان زندہ باز کے نعرے لگاتے ہوئے ہنسی خوشی جیلوں کی طرف رواں ہوتے تھے پولیس یا تو لوگوں کو پکڑ کر جیل خانہ میں بند کر دیتی یا ان لوگوں کو شہر سے دس بارہ میل دور جنگل یا ویران جگہ پر اکیلے چھوڑ آتے تھے یہ لوگ پیدل چل کر بھی ہمت نہ ہارتے تھے پر دوبارہ گرفتاری کے لیے پولیس کی لاری میں بیٹھ جاتے تھے گویا جیل جانا ان کے لئے ایک کھیل ہو گیا تھا ان مشکلات کے باوجود پاکستان کی رٹ لگائے رکھی مسلم لیگ اور پاکستان کی کہ حمایت میں جلوس نکالتے اور ڈپٹی کمشنر کی عدالت تک سڑک روک کر نماز پڑھنے جیسی جسارتوں کی پاداش میں آئے دن پکڑے جاتے اور رہا ہوتے رہتے تھے
غرض قومی آزادی کی یہ لہر اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو خش و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئی انتخابات اسمبلی اور خضر حیات ٹوانہ کی وزارت مستعفی ہونے تک کے درمیانی فاصلے میں ہندوؤں سکھوں اور انگریزوں کی ملی بھگت سے مسلمانان پنجاب کو انتہائی کرب ناک ظلم و ستم کا نشانہ بنا پڑا یہ ایک علیحدہ اور ہمارے قومی آرام و مصائب کی نہایت دردناک داستان ہے مگر مسلمانان ضلع جھنگ کی پاکستان سے محبت اور حضرت قائد اعظم سے انتہائی عقیدت کا مہنہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ تحریر مصنف کی ذاتی تحقیق اور آراء پر مبنی ہے ادارہ دی جھنگ ٹائمز کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *