سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں تسلیم کر لیا گیا اب ہمیں روز گار ملنے کی بھی شروعات ہوچکی ہے لیکن ابھی بہت طویل سفر ہے جو ہمیں طے کرنا ہے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والی ٹرانس جینڈر فیضی نے جب یہ الفاظ کہے تو اگر چہ اس کے لب مسکرا
سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں تسلیم کر لیا گیا اب ہمیں روز گار ملنے کی بھی شروعات ہوچکی ہے لیکن ابھی بہت طویل سفر ہے جو ہمیں طے کرنا ہے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والی ٹرانس جینڈر فیضی نے جب یہ الفاظ کہے تو اگر چہ اس کے لب مسکرا رہے تھے لیکن اس کی آنکھوں کی اداسی جو وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی نظر ضرور آئی.
پاکستان میں آج سے چند سال پہلے تک ٹرانس جینڈرز کو صرف ناچ گانے اور جسم فروشی جیسے پیشوں سے ہی منصوب سمجھا جاتا تھا لیکن پاکستان میں کچھ ٹرانس جینڈرز نے اپنوں کے تمام تر تلخ رویوں کو محسوس کرنے کی بجائے نفرتوں اور تلخیوں کے اس معاشرے میں اپنے اور اپنے جیسوں دوسرے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھی اپنی حد تک تو انہیں کامیابی ہوچکی ہے لیکن ان جیسے بہت سے ٹرانس جینڈرز کے لیے ایک اور طویل کٹھن راستہ ان کا منتظر ہے.
فیضی کے علاوہ پاکستان میں اسلام آباد کی عائشہ مغل نے انٹرنیشنل ریلیشن اور ملتان کی علیشاہ شیرازی نے ایجوکیشن میں ایم فل کیا ہوا .
فیضی پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ہے جس نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اردو لٹریچر میں ایم فل کیا ہے اور یہ اعزازبھی انہی کو حاصل ہے کہ وہ اردولٹریچر میں ایم فل کرنے والی پاکستان کی اب تک پہلی ٹرانس جیڈر ہیں۔فیضی اس وقت ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پنجاب پولیس کی جانب سے بنائے گئے تحفظ سنٹر میں بطور ویکٹم سپورٹ آفیسر تعینات ہیں اور ٹرانس جینڈر ز کے حقو ق کے لئے بھی مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ بھی کام کرتی ہیں
فیضی کہتی ہیں ان کے ابتدائی تعلیم کے تجربات کافی تلخ تھے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا فیضی کا کہنا تھا کہ وہ شکر گذارہیں آئی جھی پنجاب کی جنہوں یہ اچھا فیصلہ کیا اور اب نہ صرف وہ خود ایک باعزت روزگار کما رہی ہیں بلکہ اپنی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دیگر محروم طبقوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش بھی کررہی ہیں۔.
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ٹرانس جینڈر دعا جنہوں ساہیوال سے ایل ایل بی اور ٹوبہ میں ایگریکلچر یونیورسٹی کے کیمپس سے بی ایس زولوجی کیا ہوا ہے اور اپنا بیوٹی پارلر چلاتیں ہیں کہتیں ہیں کہ تعلیم بہت شوق اور جستجو سے حاصل کی ہے لیکن معاشرتی رویوں کی تلخیوں کے سامنے ہمت نہیں پڑتی ہر کوئی فیضی جتنا خوش قسمت نہیں ہوتا کہ اس اچھی ملازمت مل جائے اسی وجہ سے وہ پڑھنے لکھنے کے باوجود بیوٹی پارلر چلاتیں لیکن اگر انہیں کام کرنے کے مواقع اور ساز گار ماحول ملے تو وہ کیوں نہیں کام کریں گئی اور اگرانہیں کبھی یہ موقع میسر آیا تو وہ اپنی کمیونٹی کی بہتری کے لئے ضرور کام کریں گئی۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ٹرانس جینڈر زیب النساء زیبو نےگزشتہ سال ہی ایم اے ایجوکیشن کیا ہے اور اب ٹوبہ کے ایک نجی اسکول میں پڑھاتی ہیں وہ اسکول انتظامیہ کے روئیے سے بہت مطمئین نظر آئیں ان کا کہنا تھا کہ ان کی جاب تو اچھی جارہی ہے لیکن چونکہ ان کوئی جاب سیکورٹی نہیں اس وجہ سے حکومت اگر مناسب سرکاری ملازمت مل جائے تو یہ ان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے اور زیادہ بہتر انداز میں نہ صر ف خود زندگی گذار سکتیں بلکہ اپنے جیسے بہت سے ٹرانس جینڈرز کی بہتری کے لئے کام کرسکتیں ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں برٹش کونسل کے آواز دو پروگرام ادارہ تعلیم وآگاہی کی محترمہ خالدہ کہتیں ہیں کہ ہمارے معاشرے کے دیگر افراد کی طرح ٹرانس جینڈرزبھی صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں ہیں لیکن افسوس یہ کہ ہمارے معاشرتی رویوں کی وجہ سے انہیں تضحیک زندہ ماحول میں زندگی برس کرنی پڑتی ہے ۔ہمیں نہ صرف اپنے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے بلکہ آئین پاکستان کے بنیادی انسانی حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹرانس جینڈرز کو ان کا حق دینا چاہئے ۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ پاکستان کے ٹرانس جینڈرز میں تعلیم کا رجحان فروغ پارہا ہے ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی ہم اپنی سطح پر یہ کوشش کررہے ہیں لیکن ہمیں بطور معاشرہ بھی اس میں کردار ادا کرنا ہوگا اور حکومتی حلقوں کو بھی اس پر نہ صرف سوچنا چاہئے بلکہ اس حوالے سے بہتر قانون ساز ی بھی کرنی چاہئے .
اس وقت پاکستان میں پڑھے لکھے ٹرانس جینڈر ز کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں نہیں بلکہ درجنوں میں ہوگی انہیں آسانی کے ساتھ مختلف سرکاری محکموں میں ملازمت دی جاسکتی ہے تا کہ وہ اپنے جیسے دوسرے ٹرانس جینڈر ز کے لیے مشعل راہ بن سکیں اور کم از کم اپنوں کے ساتھ کچھ سکون کے ساتھ رہ سکیں
پاکستان کے پڑھے لکھے ٹرانس جینڈر امید کی نئی کرن ہیں یہ مثبت تبدیلی کی جانب ایک اہم قدم ہے پنجاب پولیس کی طرح دیگر اداروں کو بھی اس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف معاشرے میں ٹرانس جینڈر ایک عام شہری کی طرح اپنی زندگی گذار سکیں بلکہ ایک مفید شہری کی طرح ملکی ترقی میں اپنا کردار اد ا کرسکیں.
پڑھے لکھے ٹرانس جینڈر ایک نئی صبح کے اجالے کی نوید تو ضرور ہیں لیکن ہمارے معاشرتی رویوں اور منصوبہ سازوں کی غیر منصفانہ پالیسیوں کے اندھیروں کہیں یہ کھو نہ جائیں اور ہمارے فیصلہ سازوں کے وقت گذرنے بعد کیئے جانے والے فیصلے اپنی افادیت کھو بیٹھیں گے. معاشرہ کے ایک فرد کی حثیت سے ہم پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہمیں انہیں قبول کرنا ہوگا اور ان کے مسائل کو سمجھنا ہوگا
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *