ساٹھ سالہ سابق کونسلرمحمودالحسن نول جو وارڈ نمبر 24 سے کئی بار کونسلر منتخب ہوچکے ہیں کومقامی حکومتیں نہ ہونے کے باعث اپنے علاقے میں صفائی ستھرائی کے حوالے سے کئی بار میونسپل کمیٹی جھنگ کے چکر لگانے پڑتے ہیں تب کہیں جاکر ان کے مسائل کا حل نکلتا ہے۔ لیکن جب مقامی حکومتیں فعال
ساٹھ سالہ سابق کونسلرمحمودالحسن نول جو وارڈ نمبر 24 سے کئی بار کونسلر منتخب ہوچکے ہیں کومقامی حکومتیں نہ ہونے کے باعث اپنے علاقے میں صفائی ستھرائی کے حوالے سے کئی بار میونسپل کمیٹی جھنگ کے چکر لگانے پڑتے ہیں تب کہیں جاکر ان کے مسائل کا حل نکلتا ہے۔ لیکن جب مقامی حکومتیں فعال تھیں تو علاقہ کے لوگ ان کے پاس شکایات لے کر آتے تھے تو فوری طور پر ان کی شکایات کا اذالہ کردیا کرتے تھے۔ محمودالحسن نول کے مطابق کسی بھی ادارے میں جب تک افسران تک رسائی آسانی سے ممکن نہ ہو اور شکایات کا مربوط اورمؤثر نظام نہ ہوتب تک عوامی شکایات صرف کاغذوں کی زینت ہی رہتیں ہیں ۔ وہ تین بار اسی وارڈ سے کونسلر منتخب ہوچکے ہیں اور مقامی طور اہل علاقہ ان سے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ میں ہوتے ہیں۔محلے اور علاقے کے لوگ ان کے پاس آئے روزاپنی شکایات اور اپنے چھوٹے موٹے مسائل لے کر آتے ہیں لیکن اب وہ انہیں صرف مشورہ ہی دے سکتے ہیں کیونکہ مقامی حکومتیں فعال نہ ہونے کی وجہ سے اب وہ زیادہ مؤثر کردار ادا نہیں کرپاتے۔وہ کہتے ہیں مقامی حکومتیں یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کا ایک عام شہری کے روزمرہ کے مسائل کو حل کرنے میں بہت اہم کردار ہے۔
بدقسمتی کے ساتھ جھنگ سمیت پنجاب بھر میں یہ سسٹم باربار تعطل کا شکار رہا ہے۔ اس سسٹم میں بنیادی طورلوگ کی شکایات یا مسائل پیدائش،اموات کی رجسٹریشن اور نکاح کے اندراج کے ساتھ ساتھ گلی محلے کی صفائی ستھرائی اور گلیوں،نالیو ں کی تمعیر و مرمت اور سیوریج سسٹم سے متعلق ہوتیں ہیں ۔یہ تمام شکایات روزمرہ کے مسائل سے تعلق رکھتیں اور انہیں روزانہ کی بنیادپر حل ہونا چاہئے لیکن اب کئی سالوں سے بدقسمتی کے ساتھ ایسا نہیں ہوپارہا جس کی بنیادی وجہ وہ سیاسی عدم استحکام کو سمجھتے ہیں۔
شکایات کا اذالہ نہ ہونے کی یہ صرف ایک داستان نہیں بلکہ جھنگ کی شہریوں کی ایک بڑی تعداد شکایات کا اذالہ نہ ہونے یا انتہائی تاخیر سے حل ہونے کا گلہ کرتی نظر آتی ہے ۔
پنجاب میں آخری بار بلدیاتی انتخابات 2017 میں اور صرف دوسال چارہ ماہ رہنے کے بعد مقامی حکومتوں کو مئی 2109 مکمل طور پر غیرفعال کردیا گیا ۔اگر چہ 20اکتوبر2021 میں ایک عدالتی فیصلے کے مطابق اسے بحال کردیا گیا لیکن صرف دوما ماہ بعد ہی اس وقت کی حکومت کی جانب سے 31 دسمبر 2021 کو اس نظام ایک بار پھر ختم کر دیاگیا ۔مقامی حکومتیں مکمل طور پر غیر فعال ہونے کے باعث شہریوں کے سیوریج سٹریٹ لائٹس، صفائی ستھرائی سمیت روز مرہ کی دیگر مسائل کی شکایات میں اضافہ ہورہا ہے
بلدیہ جھنگ میں قائم شکایات سیل کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ان کے پاس اوسطاؒ 200 سے 300 کے قریب شکایات آیا کرتی تھیں لیکن گزشتہ دو تین ماہ سے یہ اب کم ہوکر 100 سے 150کے قریب رہ گئیں ہیں ۔ان میں سے زیادہ تر شکایات سیوریج سے متعلقہ ہوتیں ہیں ۔ محکمہ لوکل گورنمنٹ جھنگ میں کوئی بھی شکایت سیل موجود نہیں ہے۔ لوکل گورنمنٹ جھنگ کے دفتر سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق انہیں لوکل گورنمنٹ پنجاب کے مرکزی شکایات سیل کی جانب سے اوسطا ہر ماہ 100 سے 150 کے قریب شکایات موصول ہوتیں ۔ اسی طرح ضلع کونسل جھنگ میں قائم شکایات سیل میں بھی تقریبا 200 کے قریب شکایات ماہانہ کی بنیاد پر موصول ہوتیں ہیں۔ ان تینوں محکموں میں اگر چہ شکایات کا نظام موجود ہے لیکن شکایات جلد حل نہ ہونا ایک حل طلب معاملہ ہے۔
شکایات کے اندراج کا ایک اور بڑا ذریعہ پاکستان سٹیزن پورٹل ہے لیکن اس کے اعدادو شمار دستیاب نہیں ہوپائے ۔
وارڈ نمبر 50 کے کونسلر 40 سالہ انصرعباس سربانہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کے مقامی حکومتوں میں شکایات کے نہ صرف فوائد ہیں بلکہ اس سے مسائل بھی حل ہوتے ہیں اس کے لئے مربوط نظام اورعوام سے مسلسل رابطے کا ہونا بہت اہم ہے ۔ اگر وہ اپنے دور اور موجودہ دور کا مقابلہ کریں تو وہ سمجھتے ہیں کہ اب جو شکایات کا نظا م موجود ہے وہ تقریبا وہی ہے جو ان کے دور میں ہوا کرتا تھا لیکن اب شکایات کا اذالہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ان کے دور میں یہ اب سے لاکھ درجے بہتر تھا ۔ انصر کہتے ہیں اپنے علاقے لوگوں کی شکایات کی روزانہ کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں یہ علم تھا کہ وہ عوامی طور پر جوابدہ ہیں ۔انہوں نے اپنے دور میں سیکڑوں کی تعداد میں برتھ رجسٹریشن،ڈیتھ سرٹفیکیٹ کے حوالے سے اہل علاقہ کو ہوم سروس فراہم کی اوروہ سیوریج کے مسائل کوروزانہ کی بنیاد پر حل کیا کرتے تھے۔ اب چونکہ انتظامی طور پر تمام سرکاری افسران اس کو دیکھتے ہیں لہذا لوگوں کی شکایات کئی کئی روز یوں ہی پڑی رہتیں ہیں۔ سرکاری افسران اول تو دفاتر میں ملتے ہی نہیں ہیں اگر مل بھی جائیں تو مختلف حیلوں بہانے بنا کر سائل کو رخصت کرد یتے ہیں ۔
انصر کہتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ 2107 میں جھنگ کے سیوریج کی بڑھتی ہوئی شکایات کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے چیئرمین بلدیہ شیخ نواز اکرم کی جانب سے جھنگ کے سیوریج کے نظام کو بہتر کرنے کے لئے نیسپاک کے ذریعے ایک جامع سروے کروایا گیا اور پھرپنجاب کے اضلاع کو ورلڈ بنک کی جانب سے شروع کئے جانے پروگرام میں اس شامل کروا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد ہی ہماری حکومتیں ختم کردیں گئیں۔ مقامی حکومتیں ختم ہونے کے بعد یہ میگا پراجیکٹ تعطل کا شکارہوگیا۔ سیوریج سسٹم کے حوالے سے بے پناہ شکایات آنے کے باوجود یہ پراجیکٹ انتہائی سست روی کاشکار رہا اور اب تک مکمل نہیں ہوپایا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شکایات کا وہی سسٹم اب بھی تقریبا اسی انداز میں کام کرررہا جس طرز پر ان کے دور میں کام کرررہا تھا لیکن اب مانٹیرنگ نہ ہونے کے برابرجس کی وجہ مسائل حل نہیں ہوپارہے ۔
محلہ جلال آباد کی 35 سالہ محمد افضل کے مطابق ان کے علاقے میں کئی سالوں سے سیوریج کا مسائل بڑا گھمبیر ہے انہوں اس کےلئے کئی بار احتجاج بھی کیا اور شکایات بھی درج کروائیں۔ اس کے بعد ڈپٹی کمشنر جھنگ نے متعلقہ افسران کے ساتھ ان کے علاقہ کا دورہ بھی کیااس مسئلے کو عارضی طور پر کسی حد تک تو حل کیا گیا لیکن اس کے مستقل حل کی ضرورت ہے ۔ اگر مقامی حکومتیں ہوتیں تو یقینی طور پر اپنے علاقے کے کونسلر کو پکڑتے اور ان کا یہ مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا ۔
مقامی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے سنیئر صحافی یوسف رضا بھٹی کتہے ہیں کہ لوکل گورنمٹ سسٹم میں چونکہ مقامی طور پر کونسلر یا نظام کو روزانہ کی بنیاد پر انہیں اپنے علاقے کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ جلد شکایات کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت جو نظام موجود ہے اس میں شکایات اس وجہ سے بھی حل نہیں ہوپاتیں کہ اول تو افسران دفاتر میں ملتے ہی نہیں ہیں اور اگر کبھی مل بھی جائیں تو سوائے کاغذی کاروائی کے کوئی بھی مناسب حل تلاش نہیں کیا جاتا ۔ یوسف رضا کہتے ہیں اس کی سب سے بڑی مثال گلشن کالونی ٹوبہ روڈ ،سیتلائٹ ٹاؤن ، محلہ یوسف آباد مرضی پورہ سمیت بہت سے شہری علاقوں کے سیوریج کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں اور حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شکایات کے حل کے لئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو جب تک عوامی نمائندوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا تب تک مسائل کا حل نکلنا ممکمن نہیں ہے۔سٹیزن پورٹل شکایات کوحل کرنا کا ایک بہتر پلیٹ فارم ہے لیکن اس کو بھی اب غیر فعال ہی سمجھیں ۔سٹیزن پورٹل جب مکمل طور پر مکمل طور پر فعال تھا تب بھی انہی افسران کو شکایات کے حل کے لئے ڈائریکشن دیں جاتیں تھی جن کے متعلق شکایات ہوا کرتیں تھیں۔ شکایات کے نظام کو بہتر اور فعال ہونے کے لئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کی بحالی ہی بہترین حل ہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ مہر لیاقت کہتے ہیں ان کے پاس زیادہ جو شکایات بھی آتی ہیں وہ پنجاب لوکل گورنمنٹ کے مرکزی شکایات سیل کی جانب سے آتی ہیں اور کوشش کی جاتی ہے انہیں فوری طور پر حل کردیا جائے ۔ان کے پاس تقریبا 70 فیصد کے قریب شکایات ایسی ہوتیں ہیں جو پالیسی یا عدالتی معملات سے متعلق ہوتیں ہیں جس کی وجہ سے ان میں تاخیر ہوتی ہے کیونکہ قانون کے مطابق وہ اس میں کچھ کر نہیں سکتے ۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد شکایات کا اذالہ کیا جائے اور جو شکایات ان کے دائرہ اختیار میں ہوتیں ہیں ان کا حل چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں کر دیا جاتا ہے۔
چیف آفیسر میونسپل کمیٹی جھنگ ملک ظفر عباس اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ شکایات سسٹم مؤثر انداز میں کا م نہیں کررہا ۔ملک ظفر کے مطابق سرکارافسران بھی جوابدہ ہوتے ہیں ۔جہاں تک مسائل کی بات ہے تو یہ دوطرح کے ہوتے ایک وہ جن کو دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے اور ایک وہ جن کے لئے فنڈز درکار ہوتے ہیں فنڈز نہ ہونے کی باعث کچھ مسائل میں تاخیر ہوسکتی ہے لیکن دیگر تمام شکایت کا اذالہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کر دیا جاتا ہے۔ان کے پاس شکایات چار مختلف ذرائع سے آتی ہیں۔ جن میں سٹیزن پورٹل ،وزیراعلیٰ پنجاب شکایات سیل،ڈپٹی کمشنر دفتر میں قائم شکایات سیل اور میونسپل کمیٹی کے اپنے شکایات سیل کے ذریعے ۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس زیادہ تر شکایات سیوریج کی ہوتیں ہیں ۔ وہ دستیاب وسائل کا بہترین استعمال کررہے جس کے باعث گزشتہ کئی ماہ سے شکایات میں واضع کمی آئی ہے۔ وہ اس امر سے انکار نہیں کرتے کہ مسائل نہیں ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہے کہ شکایات کا اذالہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی بنیادی وجہ سیوریج سسٹم کی توسیع ہے جس پر تیزی کے ساتھ کام کیا جارہا ہے ۔ وہ امید کرتے ہیں جیسے ہی یہ منصوبے مکمل ہوجائیں گا نہ صرف شکایات میں بہت زیادہ کمی آجائے گئی بلکہ مسائل بھی حل ہوجائیں گئے ۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے سخت ہدایات کے بعد ڈپٹی کمشنر صاحب کی زیر نگرانی صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے جس سے شکایات میں مزید کمی آئے گئی۔
وہ نہیں سمجھتے کہ شکایات کا مناسب حل نہیں کیا جاتا لیکن ہر شکایات کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے کچھ شکایات ایسی ہوتیں جن کے مستقل حل کے لئے نئے منصوبوں کی ضرورت ہوتی جبکہ کچھ انتطامی طور پر حل کی جاسکتی ہیں۔
محمد اکمل ملک
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *