انسان کے روئے زمین پر سفر ایک طویل تاریخ ہے جو کئی صدیوں پر محیط ہے اس کروہ ارض نے بہت سے انسانی ادوار دیکھے ۔ انسان کو پتھر کے دور سے لیکراس ڈیجیٹل دور کی ترقی کو بھی دیکھا ۔دنیا میں بہت کچھ بدل گیا لیکن جو نہ بدلا وہ کمزور پر ظلم کرنا
انسان کے روئے زمین پر سفر ایک طویل تاریخ ہے جو کئی صدیوں پر محیط ہے اس کروہ ارض نے بہت سے انسانی ادوار دیکھے ۔ انسان کو پتھر کے دور سے لیکراس ڈیجیٹل دور کی ترقی کو بھی دیکھا ۔دنیا میں بہت کچھ بدل گیا لیکن جو نہ بدلا وہ کمزور پر ظلم کرنا نہ بدلا ۔ ہمیشہ سے ہی اس کرہ ارض پرکمزور طبقہ ظلم ستم کا شکار رہا ہے۔ تنازعات اور معاشی بحرانوں کے دوران صنفی تشدد کے واقعات میں اضافہ ایک تلخ حقیقت ہے، اور اس کی ذمہ داری ان حکومتوں پر عائد ہوتی ہے جو حفاظتی نظام بنانے اور پدرشاہی بیانیے کو چیلنج کرنے میں ناکام رہیں۔ کرپٹ، کمزور اور متعصب فوجداری نظامِ انصاف نے ایسے حالات پیدا کیے ہیں جہاں ہر دو منٹ میں ایک عورت زیادتی کا نشانہ بنتی ہے، جو انصاف کی فراہمی میں ریاستی ناکامی کی سنگین مثال ہے۔ جدید دور میں جسمانی ہراسگی،لفظی ہراسگی کے ساتھ ساتھ ڈیجٹیل ہراسگی میں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
یونیسف کی تازہ رپورٹ کیا کہتی ہے
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے جاری کردہ نئے اعداد وشما کے مطابق، دنیا بھر میں 37 کروڑ سے زائد لڑکیاں اور خواتین یعنی ہر آٹھ میں سے ایک اپنی 18 سال کی عمر سے پہلے جنسی زیادتی یا حملے کا شکار ہوئیں۔ جب غیر جسمانی جنسی تشدد، جیسے آن لائن یا زبانی ہراسانی کو شامل کیا جاتا ہے، تو متاثرہ لڑکیوں اور خواتین کی تعداد 65 کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔
یونیسف کی اس تازہ رپورٹ میں دیئے جانے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد جغرافیائی، ثقافتی، اور معاشی حدود سے بالاتر ہے۔ سب صحارا افریقہ میں سب سے زیادہ متاثرہ افراد ہیں، جہاں 7 کروڑ 90 لاکھ لڑکیاں اور خواتین متاثر ہوئی ہیں (22 فیصد)، اس کے بعد مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں 7 کروڑ 50 لاکھ (8 فیصد)، وسطی اور جنوبی ایشیا میں 7 کروڑ 30 لاکھ (9 فیصد)، یورپ اور شمالی امریکہ میں 6 کروڑ 80 لاکھ (14 فیصد)، لاطینی امریکہ اور کیریبین میں 4 کروڑ 50 لاکھ (18 فیصد)، شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا میں 2 کروڑ 90 لاکھ (15 فیصد)، اور اوشیانا میں 60 لاکھ (34 فیصد) ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، زیادہ تر بچپن کا جنسی تشدد نوعمری کے دوران ہوتا ہے، خاص طور پر 14 سے 17 سال کی عمر کے درمیان ایک نمایاں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ مطالعات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جن بچوں کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ دوبارہ اسی صورت حال کا شکار ہونے کے امکانات رکھتے ہیں۔ نوعمری کے دوران ہدفی مداخلتیں اس دائرے کو توڑنے اور ایسے صدمے کے طویل مدتی اثرات کو کم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
ڈیجیٹل ہراسگی
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، جو تعلیم، روزگار، اور سماجی شمولیت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، اب صنفی بنیاد پر تشدد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ خطرہ سائبر ہراسگی اور تعاقب سے لے کر ڈیپ فیک فحاشی تک – نہ صرف خواتین کی ڈیجیٹل آزادی پر حملہ ہے بلکہ ان کی ذہنی صحت اور سماجی شرکت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ یہ صورتحال فوری اور ٹھوس اصلاحات کا تقاضا کرتی ہے تاکہ آن لائن دنیا کو سب کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔
خواتین کے خلاف ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والے تشدد میں اضافہ عالمی سطح پر ایک تشویشناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے، جو کووڈ-19 وبا کے دوران شدت اختیار کر گیا، کیونکہ خواتین نے کام، تعلیم، اور سماجی روابط کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا زیادہ استعمال کیا۔ اس مسئلے نے قانونی تحفظات میں سنگین خلا کو بے نقاب کیا ہے، جس کے لیے فوری طور پر قانون سازی کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں 85 فیصد خواتین کسی نہ کسی شکل میں آن لائن ہراسگی کا شکار ہوئیں، جبکہ ایشیا پیسفک خطے میں یہ شرح 88 فیصد تک جا پہنچی۔
پاکستان کی صورت حال
پاکستان میں یہ مسئلہ انتہائی سنگین ہے،قانون انصاف کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اگست 2024 میں صنفی تشدد کے حوالے ایک رپورٹ جاری کی گئی ۔ رپورٹ میں سال 2023 کے دوران ملک بھر میں صنفی تشدد کے حوالے سے زیرالتواء اور درج ہونے والا مقدمات کے اعدادو شماراورمخلتف عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے۔(file:///C:/Users/Dan/Downloads/Documents/gbv.pdf)
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صنفی تشدد کے رجحان میں تشویشناک اضافہ سامنے آیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں،صنفی تشدد کے مقدمات کے لئے مجموعی طور پر 480 عدالتیں نامزد کی گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یکم جنوری2023 کے آغاز میں 21،891 کیسز زیرالتواء تھے۔جبکہ سال 2023میں 48,395 نئے کیسز قائم کیے گئے اور 30,631 کیسز کو حل کیا گیا، جس کے نتیجے میں دسمبر 2023 تک کل39,655 کیسز زیرالتواء تھے یہ اعدادو شمار کیسز میں نمایاں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے اختتام پر پاکستان بھر میں صنفی تشدد کے تقریبا 81 فیصد کیسززیرالتواء تھے۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب میں صنفی تشدد کے مقدمات کے لیے 196 عدالتیں تفویض کیں گئیں تھی۔ سال کے آغاز میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 16,958 تھی جبکہ 2023 کے اختتام پرنئے قائم ہونے والے مقدمات کی تعداد 42,990 تک پہنچ گئی جبکہ 25,598 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 34,350 مقدمات باقی رہ گئے جو کہ تقریبا سوفیصد سے زائد مقدمات زیرالتواء ہیں۔
سندھ میں صنفی تشدد کے مقدمات کے لیے 27 عدالتیں تفویض کی گئیں۔ گزشتہ سال کے آغاز میں زیر التواءمقدمات کی تعداد 1,453 تھی۔ اس سال کے دوران کل 1515 نئے کیسز قائم کئے گئے اور 1473 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 1473 مقدمات زیر التواء تھے ۔سندھ میں ان میں صرف 3 فیصد معمولی اضافی دیکھنے میں آیا ۔
خیبر پختنخواہ میں صنفی تشدد کے لئے 105 عدالتیں قائم ہیں۔2023 کے آغاز میں یہاں پر زیر التواء مقدمات کی تعداد2،230 تھی جبکہ اس سال 1738 نئے کیسز سامنے آئے جبکہ 1421 کیسز حل کر لئے گئے اور سال کے آخر میں 2،547 کیسز باقی رہے گئے اور یہاں پر زیرالتواء مقدمات کی کی شرح میں چودہ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
بلوچستان میں صنفی تشدد کے مقدمات کے لئے 150 عدالتیں کام کررہی ہیں ۔گزشتہ سال کے آغاز میں یہاں پرزیر التواء مقدمات کی تعداد 170 تھی جبکہ اس سال کے دوران 432 نئے مقدمات درج ہوئے اور 428 مقدمات حل کر لئے گئے اور یوں یہاں پر زیر التواء مقدمات کی تعداد 2023 کے آخرمیں 174 رہ گئی جوکہ تقریبا 2 فیصد بنتی ہے۔
وفاقی درالحکومت اسلام آباد میں صنفی تشدد کے لئے 2 عدالتییں بنائی گئیں ہیں یہاں گزشتہ سال کے آغاز میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 1080 تھی جبکہ اس سال کے اختتام پر کل 1720 نئے مقدمات کا اندراج کیا گیا جبکہ 1711 مقدمات کا فیصلہ کر دیا گیا ۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صنف کی بنیاد پر ہلاکتوں میں اضافہ ہوا حالانکہ صنفی بنیاد پر نقصان کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شادی سے متعلق جرائم میں زیر التوا مقدمات میں اضافہ دیکھا گیا جبکہ معاشی تشدد کے واقعات میں کمی آئی ۔قانون و انصاف کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ صنفی بنیاد پر دھمکیاں دینے کے مقدمات میں کمی ہوئی جبکہ صنفی بنیاد پر الیکٹرانک جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5 فیصد سزا کی کم شرح اور 64 فیصد مقدمات میں ملزما ن کا بری ہوجانا ایک پریشان کن صورت حال ہے یہ رجحان تمام صوبوں میں یکساں ہے اور نظام کے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے جن میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔
یہ ہراسگی خواتین کی تعلیم، روزگار، اور سیاسی شمولیت میں رکاوٹ ڈالتی ہے، جس کی وجہ سے کئی طالبات تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور ملازمت پیشہ خواتین میں سے 15 فیصد اپنی نوکریاں ترک کر دیتی ہیں۔
کچھ توجہ طلب مسائل اور بھی ہیں
اگرچہ زیادہ تر متاثرین لڑکیاں اور خواتین ہیں اور ان کے تجربات بہتر طور پر دستاویزی ہیں، لیکن اعداد و شمار کے مطابق لڑکے اور مرد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ 24 سے 31 کروڑ لڑکے اور مرد یعنی ہر گیارہ میں سے ایک بچپن میں جنسی زیادتی یا حملے کا شکار ہوئے۔ جب غیر جسمانی تشدد کو شامل کیا جاتا ہے تو یہ تعداد 41 سے 53 کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔
لڑکوں کے تجربات اور غیر جسمانی جنسی تشدد کے بارے میں مستقل ڈیٹا کی کمی اس مسئلے کی مکمل شدت کو سمجھنے کے لیے ڈیٹا جمع کرنے میں اضافے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *