728 x 90

معلومات تک رسائی کے قانون پر عملدآمد اور حکومتی عدم دلچسپی۔

معلومات تک رسائی کے قانون پر عملدآمد اور حکومتی عدم دلچسپی۔

معلومات تک رسائی کا حق شفافیت اور احتسابی عمل میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ قانون پاکستانی شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ ان کے ٹیکس سے بنائے گئے ترقیاتی منصوبے،بجٹ وغیرہ تک شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق دیا جائے۔ سال 2004 میں متعارف ہونے والا یہ قانون معلومات تک محدود رسائی

معلومات تک رسائی کا حق شفافیت اور احتسابی عمل میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ قانون پاکستانی شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ ان کے ٹیکس سے بنائے گئے ترقیاتی منصوبے،بجٹ وغیرہ تک شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق دیا جائے۔ سال 2004 میں متعارف ہونے والا یہ قانون معلومات تک محدود رسائی دیتا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرکاری رازداری کے ایکٹ کی موجودگی تھی۔ جبکہ اس کا دائرہ کار بھی صرف وفاقی حکومت اور اس کے اداروں تک محدود تھا۔اس پرانے قانون کے تحت سرکاری اداروں سے معلومات کی فراہمی کے لیے 21 دن کا عرصہ درکار ہوتا تھا جوکہ ایک طویل وقت تھا، اور اس مقصد کے لیے مقرر کردہ فیس بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر تھی۔ "پھر مرتا تو کیا نہ کرتا” شہری کس طرح سے معلومات تک رسائی کے حق کو حاصل کرتے۔اس قانون کے تحت معلومات کے حصول کا عمل اس قدر پیچیدہ تھا کہ سال 2005 سے سال 2010 تک صرف 51 لوگوں نے اس قانون کے تحت معلومات تک رسائی کے لیے حکومت سے رابطہ کیاتھا۔تبدیلی کا عمل سال 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد شروع ہوا جس کے مطابق پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19 اے کو شامل کیا گیا۔ اس کے مطابق کوئی بھی شہری قوانین کے تحت مفاد عامہ سے متعلق کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔قومی اسمبلی نے مشرف دور میں منظور شدہ "رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس 2002″کو تبدیل کرتے ہوئے "دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017″ پاس کیا تھا۔ اس کے تحت شہری تمام وفاقی وزارتوں اور محکموں سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت ہر شہری صوبائی اداروں کے ماتحت اداروں سے اس ایکٹ کے تحت معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ کہ کوئی بھی ادارہ معلومات فراہم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ معلومات تک رسائی کا خط گیا نہیں اور سوال شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ معلومات کیوں چاہیں؟ کیا کرنی ہے؟ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ بہت سارے افسران بالا یہ الزام عائد کر دیتے ہیں کہ ہمیں بلیک میل کیا جا رہا۔ اگر معلومات فراہم کردی گئی تو شہریوں کی طرف سے بلیک میل ہوجائیں گے۔ ان افسران سے سوال تو یہ بنتا ہے کہ آپ بلیک میل ہونے والا کام ہی نہ کرتے سینہ تان کرکہتے کہ ہم نے بروقت معلومات فراہم کردی ہے اور اگر کسی جگہ کرپشن یا بدعنوانی پائی جاتی ہے تو کہتے کہ ہم احتسابی عمل کےلئے تیار ہیں۔ لیکن جب پوری کی پوری دال ہی کالی ہو تو کیا کیا جاسکتا ہے۔اور بعض دفعہ تو افسران کی طرف سے شہریوں کو اخلاقی طور پر 16ایم پی او کے تحت امن و عامہ میں خلل ڈالنے کے جرم میں نظر بندی کی دھکمی بھی موصول ہوجاتی ہے۔ یہاں راقم اس بات کی حوصلہ افزائی بالکل نہیں کر رہا کہ ایسا کیا جائے معلومات کا غلط اور منفی استعمال کیا جائے ۔ بلکہ اس بات کو باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شفافیت اور احتساب کے ایکٹ میں معلومات فراہم کرتے وقت وجہ نہیں پوچھی جا سکتی۔ راقم پچھلے ایک سال سے 40 سے زائد درخواستں پاکستان بھر میں مختلف اداروں کے ہیڈز کو ارسال کر چکا ہے۔ ان درخواستوں پر بروقت معلومات نہ ملنے کے عوض چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب اور پاکستان انفارمیشن کمشنر اسلام اباد کو بروقت شکایات بھی درج کروا چکا ہے۔ لیکن نچلی سطح سے لے کر اوپروالی سطح تک کسی کے سر پر جوں تک نہ رینگی، تمام اداروں کے پبلک انفارمیشن افیسرز اور انچارج خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ افسران بالا شہریوں کے ٹیکس سے تنخواہیں اور مراعات تو وصول کر رہے ہیں لیکن جواب تک نہ دینے کی فرصت بھی نہ ہے۔معلومات کی درخواستیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہیں۔اسی طرح کمشنرز کو کی گئی اپیلیں بھی خارج کر دی جاتی ہونگی۔میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اگر اپیلیں خارج نہ ہوتی تو انفارمیشن کمشنرز کی طرف سے درخواست ہندگان کو کوئی تو رابطہ کرتا۔”افسوس در افسوس” شکوہ اس بات کا بھی ہے کہ ضلعی سطح کے افسران جواب نہیں دیتے لیکن اس سے بڑا شکوہ یہ بھی ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کرنے والے افسران بھی جواب نہیں دیتے اور نہ ہی کوئی کاروائی عمل میں لاتے ہیں،نہ ہی سزاؤں اور جرمانوں کا اطلاق کیا جاتا ہے، پھر کبھی کبھار اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں کہ آخر یہ قانون تو شفافیت اور احتساب کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اگر عمل ہی نہ کرنا تھا تو اس قانون کو بنا کر لاکھوں کروڑوں ملین روپے ضائع کیوں کیے گئے اور اگر یہ قانون نافذ کر دیا گیا ہے تو اس قانون کے مثبت استعمال سے ہم کوئی نتیجہ اخذ کیوں نہیں کر لیتے،مسائل حل کیوں نہیں کرلیتے۔ راقم نے گزشتہ ایک سال میں 40سے زائد درخواستیں لکھیں ہیں۔جن آفیسرز کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوئے انکی لسٹ ملاخطہ فرمایئے گا ان میں اداروں کے ہیڈ افسران بھی شامل ہیں۔ ڈپٹی کمشنر جھنگ،محکمہ زراعت،ایکسئین ایریگیشن،لوکل گورنمنٹ،اسٹیٹ بنک آف پاکستان،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام،ایس ای واپڈا،الیکشن کمیشن آف پاکستان،ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ،پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ اسلام آباد،محکمہ لائیو سٹاک،نادرا،سوئی گیس،میونسپل کمیٹی،محکمہ شماریات،چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب اور پاکستان انفارمیشن کمشنر اسلام آباد،ڈی او فنانس جھنگ،آئی پنجاب پولیس،متروکہ وقف املاک محکمہ اوقاف،ایکسئین بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ،محکمہ ماحولیات،فوڈ اتھارٹی،ڈی جی پی آر لاہورہیں۔ آخر میں پاکستانی شہریوں کی طرف سے یہ ہی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ براہ مہربانی اگر اس قانون پر عملدآمد کرلیا جاتا ہے تو بہت سارے مقامی مسائل حل ہونے کی امید ہے

آصف منور سماجی کارکن ہیں اور سماجی اور معاشرتی موضوعات پر لکھتے ہیں

Posts Carousel

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked with *

Latest Posts

Top Authors

Most Commented

Featured Videos