پاکستان سمیت دنیا کے ترقی پزیر ملکوں میں موٹاپے کی بیماریوں سمت جگر، دل، کینسر،گردے وغیرہ کی بیماریوں کا اچانک بڑھنا عام بات نہیں ہے یہ سب ان علا قوں میں کثرت سے فاسٹ فوڈ کا استعمال بتایا جا تا ہے پاکستان کی 24کروڑسے زیادہ آبادی والے ملک میں فاسٹ فوڈ کھانے کا رواج سب
پاکستان سمیت دنیا کے ترقی پزیر ملکوں میں موٹاپے کی بیماریوں سمت جگر، دل، کینسر،گردے وغیرہ کی بیماریوں کا اچانک بڑھنا عام بات نہیں ہے یہ سب ان علا قوں میں کثرت سے فاسٹ فوڈ کا استعمال بتایا جا تا ہے پاکستان کی 24کروڑسے زیادہ آبادی والے ملک میں فاسٹ فوڈ کھانے کا رواج سب سے زیادہ ہو گیا ہے۔امریکہ، برطانیہ، وغیرہ میں فاسٹ فوڈ زیادہ کھایا جاتا ہے لیکن ملکوں میں سخت محنت اور صحت بخش فاسٹ فوڈ ملنے کی وجہ سے وہاں موٹاپے سمیت دیگر بیماریوں کا حملہ کم ہے پاکستان میں اچانک گذشتہ 3دہائیوں سے فاسٹ فوڈ کا رحجان زیادہ ہو گیا ہے جب سے برائیلر چکن عام ہوا ہے عوام فاسٹ فوڈ کھانے کی عادی ہوتی جا رہی ہے دنیا بھر میں فاسٹ فوڈ کا اربوں روپے کا کاروبار ہے کے ایف سی، مکڈونلڈ،فراحی چک، مسٹر کوڈ وغیرہ بڑے برانڈ کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے برانڈپاکستان میں آ چکے ہیں
ہر گلی محلہ میں ان فاسٹ فوڈ کی بے شمار دوکانیں میں جہاں پاکستانی عوام فاسٹ فوڈ کھانے جاتی ہے اب آن لائن آرڈر کر کے گھروں میں فاسٹ فوڈ منگوانے کا زیادہ رواج ہو گیا ہے دنیا کے مختلف ملکوں میاں فاسٹ فوڈ اور دیگر خواراک بارے موجود ہیں چلیے سعودیہ عرب،ایران،فرانس وغیرہ میں لوگ اپنے وزن اور موٹاپے پر گہری نظر رکھتے ہیں جبکہ ایشیائی ملکوں،سنگاپور، تھائی لینڈ وت نام،انڈیا، بنگلہ دیش،پاکستان میں لوگ اس کی پروا کرتے نظر نہیں آتے اس لیے وہ موٹاپے کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں ان میں آج کل کے بچے اور بچیاں شامل ہیں کیونکہ اس تیز رفتار دور میں بچوں کو گھر کا کھانا اچھا نہیں لگتا وہ بازار سے فاسٹ فوڈ آرڈر کرنا آسانی سے 30سے40منٹ میں آجاتا ہے زیادہ پسند کرتے ہیں برگر، بن کباب،شوارما، پیزا، فرنچ فرائز، لوڈلہ،چیزسینڈوچ سمیت درجنوں ایٹم فاسٹ فوڈ میں شامل ہیں جو آج کل سکول، کالج وغیرہ کی کنٹین پر باآسانی مل جاتے ہیں
ہمارے دور میں 1980سے1990تک کالج سکول، یونیورسٹی تک میں ان چیزوں کا استعمال دیھکنے میں نہیں آیا فاسٹ فوڈکے بارے میں ڈاکٹرطارق محمود جو میڈیسن کے پروفیسر ہیں ان کے مطابق اتنی زیادہ کیلوریز ہوتی ہیں جو کسی بیماریوں کو جنم دے رہی ہیں کیونکہ انسانی جسم کو ایک خاص حدتک کیلو ریزکی ضرورت ہوتی ہے ضرورت سے زیادہ کیلوریز چربی کی شکل اختیار کرکے موٹاپے اور دیگر بیماریوں کو پیدا کرتی ہیں فاسٹ فوڈ کا عورتوں پر کتنا اثر ہے اس بارے ڈاکٹر مثل سکندر نے بتایا کہ فاسٹ فوڈ آج کل کی بچیوں میں موٹاپا، بانجھ پن وغیرہ کی وجہ بن رہا ہے کیونکہ مائیں ان کو گھروں میں فاسٹ فوڈبنانے یا بازار سے منگوانے کی اجازت دیتی ہے اور وہ جوانی میں جب ان کی شادی کی عمر ہو جاتی ہے تو وہ زیادہ کیلوریزکی وجہ سے جسم میں چربی کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس سے ان کے رشتے جلد نہیں ہوتے پھر وہ ورزش نہیں کرتی زیادہ گھریلو کام نہیں کرتی پرانی خواتین گھر کا ہر کام ہاتھ سے کرتی تھی اس لیے موٹاپا کم ہو تا تھا اب پانی کے لیے موٹر،کپڑے کے دھونے کے لیے واشنگ مشین،جوسر، کھانے پکانے کے لیے گیس،بجلی آگئی ہے اس لیے آج کی خاتون موٹاپا کا شکار ہوکر بانجھ پن کا زیادہ شکارہورہی ہیں اس کے علاوہ دیگر بیماریوں کی وجہ سے بچے پیدا نہیں ہوتے شادی لیٹ ہوتی ہے طلاق کی شرح زیادہ ہوگئی ہے
فاست فوڈ مردوں کی نسبت خواتین کے لیے زیادہ مشکل پیدا کر رہا ہے دینا بھر میں موٹاپے کی وجہ سے بیماریوں میاں اضافہ خطر ناک ہوتا جا رہا ہے دنیا بھر میں موٹاپا کا عالمی پیماناماش انڈیکس کہلاتاہے جس میں انسان کے رزن اور قد کا احاطہ کیا جاتا ہے اگر یہ انڈیکس 25سے زیادہ ہوتو وہ انسان موٹا شمار کیا جاتا ہے اگر30اور35کے درمیان ہوگا تو وہ زیادہ موٹا مانا جائیگا۔ عرب امارات،دوبئی وغیرہ،سعودیہ عرب، اردن،عمان،کویت وغیرہ میں کم چیکنائی والے کھانے پسند کیے جاتے ہیں اب اس لیے وہ موٹاپا کے اثر سے کم متاثر ہوتے ہیں پاکستان سمیت دیگر کئی ملکوں کے گاؤں وغیرہ میں ایک سروے کے مطابق جو لندن سکول آف ہائی جین اینڈٹرائیکل میڈ نے کیا تھا کے مطابق کیونکہ گاؤں وغیرہ میں ہزاروں سال سے جس طرح کا کھانا کھایا جاتا ہے اور ورزش کی جاتی ہے آپ کو گاؤں میں کم موٹے لوگ نظر آتے ہیں کیو نکہ ان میں کھانوں میں کیلوریز کی مقدار سے کم ہوتی ہے اور گاؤں کی زندگی میں ہاتھ سے کام کرنا اور پیدل چلنا وغیرہ موٹاپے کے عوامل کو کم کر دیتا ہے پاکستان میں حکومتی اداروں لازما فاسٹ فوڈ کے سلسلے میں کوئی لاء عمل بنانے کی شدید ضرورت ہے جس کے مطابق ایسے فاسٹ فوڈ کو پرموٹ کیا جائے جن میں کم کیلو ریز ہوتی ہیں اور وہ حفظان صحت کے اصول کے مطا بق ہو تمام فاسٹ فوڈ چین کم کیلوریز والاکھانابناکر عوام کو کئی بیماریوں سے بچاسکتی ہیں وہ اپنے مینووغیرہ میں تمام اجزا کی تفصیل وغیرہ دے عوام میں آگاہی کا پروگرام کرسکتی ہیں سکول، کالج وغیرہ میں محکمہ صحت کو فاسٹ فوڈ اتھارٹی سمت دیگر تمام سرکاری اوت نجی ادارے طالبا اور طالبات وغیرہ کو فاسٹ فوڈبارے آگاہی کے شیشن کرایئے اور ڈاکٹر بھی اپنے مریضوں کو فاسٹ فوڈ کے کم سے کم استعمال پر زور دیے تو کئی بیماریوں سے بچاجا سکتاہے جن اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ 24کروڑ عوام کو صحت بخش اور حلال فوڈ کی فراہمی کریں وہ کرپشن چھوڑ کر اپنا کام سو فیصد کرے تو پاکستان میں موٹاپااور دیگر خطرناک بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آراء اور تحقیق پر مبنی ہے جس سے دی جھنگ ٹائمز کا متفق ہونا ضروری نہیں
Leave a Comment
Your email address will not be published. Required fields are marked with *